ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپیشل رپورٹس / مائیکروفائنانس: خوبصورت خواب یا ایک دردناک حقیقت؟کیا آرڈیننس سے اس ظلم کا تدارک ممکن ہے؟۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

مائیکروفائنانس: خوبصورت خواب یا ایک دردناک حقیقت؟کیا آرڈیننس سے اس ظلم کا تدارک ممکن ہے؟۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

Sat, 01 Feb 2025 14:02:21    Abdul Haleem Mansoor

"تمہارے دیے گئے قرض نے میری بیٹی کو مجھ سے چھین لیا۔ سود کی قسطیں بھرنے کے بجائے اگر میں اس کی دوا لے لیتی تو شاید وہ زندہ رہتی۔"

یہ الفاظ ہبلی کی ایک خاتون کے ہیں، جن کی 19 سالہ بیٹی نے صرف اس وجہ سے خودکشی کر لی کہ گھر میں دوا خریدنے کے پیسے نہیں تھے، کیونکہ پورا خاندان مائیکرو فائنانس کے قرض میں جکڑا ہوا تھا۔ اسی طرح کرناٹک میں خودکشی کرنے والے ایک مقروض نوجوان کی بیوہ ماں کا کہنا ہے:

"ہم نے قرضے نہیں لیے تھے، ہم نے اپنی زندگی گروی رکھ دی تھی!"
یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ کرناٹک میں ہزاروں ایسے خاندانوں کی حقیقت ہے جو مائیکرو فائنانس کمپنیوں کے چنگل میں پھنس کر اپنی جمع پونجی کھو چکے ہیں۔

مائیکرو فائنانس کا مقصد غریب اور کم آمدنی والے افراد کو چھوٹے قرضے فراہم کرنا تھا، تاکہ وہ اپنی زندگی بہتر بنا سکیں۔ مگر وقت کے ساتھ، یہ نظام غریبوں کے لیے ایک خطرناک جال بن گیا، جہاں معمولی سی مدد کے بدلے ان سے کئی گنا زیادہ سود وصول کیا جانے لگا۔ محمد یونس نے جب 1976 میں بنگلہ دیش میں گرامین بینک کے ذریعے مائیکرو فائنانس کا تصور پیش کیا تھا، تو اس کا بنیادی مقصد مالی طور پر کمزور طبقے کو سود سے پاک قرض دینا تھا، مگر بھارت میں یہی نظام استحصال کا ذریعہ بن گیا۔

مائیکرو فائنانس کو ابتدا میں ایک ایسا نظام سمجھا جاتا تھا جو غریبوں کی زندگیوں میں بہتری لانے اور انہیں مالی طور پر خود کفیل بنانے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظام سنگھا قرضوں کے بوجھ تلے دبے خاندانوں کے لیے ایک لعنت بن چکا ہے۔ کرناٹک میں مائیکرو فائنانس کے ذریعے دی جانے والی قرضوں کی شرح سود اس قدر زیادہ ہے کہ اس کا بوجھ اٹھا پانا غریب عوام کے لیے ناممکن ہوگیا ہے۔ اس سسٹم کا شکار خاندانوں کا بحران مسلسل بڑھ رہا ہے اور ان کی زندگیوں میں بدحالی اور ذہنی دباؤ کی ایک نئی لہر پیدا ہو گئی ہے۔

امید یا دھوکہ: مائیکرو فائنانس کے ذریعے دی جانے والی قرضوں کی شرح سود غیرمعمولی طور پر بلند ہے، جو غریبوں کی کمر توڑ دیتی ہے۔ جب یہ قرضے واپس کرنے کی تاریخ آتی ہے تو غریب افراد، خاص طور پر خواتین، شدید مالی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ قرضوں کی وصولی کے دوران جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، وہ غیر انسانی ہیں اور ان کی وجہ سے پورے خاندان کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ قرض کی رقم کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے تحت مجبور ہو کر کئی افراد نے خودکشی تک کر لی۔ قرض دینے والے ادارے نہ صرف بے رحمی سے رقم وصول کرتے ہیں بلکہ قرض واپس نہ کرنے پر تشدد اور دھمکیوں کا بھی سامنا کراتے ہیں۔مائیکرو فائنانس ادارے قرضوں پر 24 سے 36 تک کا سالانہ سود وصول کرتے ہیں، جو عام بینکوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔کچھ معاملات میں اگر قرض دار مقررہ وقت پر ادائیگی نہ کر سکے تو سود 48 سے 60% تک جا پہنچتا ہے، جو غیر قانونی ہے۔قرض کی وصولی کے دوران جرمانے، اضافی چارجز اور زبردستی وصولی کے واقعات بھی عام ہیں۔اگر کوئی قرض دار قسط ادا نہ کر سکے، تو اس کے اہل خانہ پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، جس میں دھمکیاں، سماجی بائیکاٹ اور جسمانی ہراسانی شامل ہیں۔کئی ادارے وصولی کے لیے مسلح غنڈے بھیجتے ہیں، جو خواتین کے دروازے پر آ کر بدتمیزی کرتے ہیں اور عوامی مقامات پر بے عزتی کرتے ہیں۔یہاں تک کہ مائیکرو فائنانس کے ادارے سنگھا قرضے دینے کے نام پر خواتین کے گروپوں کو ہدف بناتے ہیں، جو اجتماعی ذمہ داری کے تحت قرض واپس کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی ایک فرد قرض واپس نہیں کرتا تو پوری کمیونٹی کو سزا دی جاتی ہے، جس سے خواتین کے ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کرناٹک کے متعدد علاقوں میں مائیکرو فائنانس کے قرضوں کا اثر پورے معاشرتی ڈھانچے پر پڑا ہے۔ غریبوں کو قرض دینے کا نظام ان کے خاندانوں کو مالی طور پر تباہ کر رہا ہے۔ ان قرضوں کے نتیجے میں ہونے والی خودکشیوں نے ایک سنگین بحران کو جنم دیا ہے، جس سے پورا معاشرہ متاثر ہو رہا ہے۔ خاص طور پر خواتین اس نظام کا شکار ہیں اور ان کے لیے معاشرتی و اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔

کرناٹک میں آرڈیننس:کرناٹک حکومت نے مسلسل شکایات اور اس مسئلے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے مائیکرو فائنانس اداروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔اور حکومت نے ایک آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مقصد ان قرضوں کے غیر انسانی طریقوں کو روکنا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت حکومت نے قرض لینے والوں کے تحفظ کے لیے چند اہم نکات شامل کیے ہیں، جن میں بلند شرح سود پر پابندی کے علاوہ قرض وصولی کے عمل کو شفاف اور غیر جارحانہ بنانا شامل ہے۔ اس میں قرضہ داروں کی ہراسانیوں پر روک لگانے کیلئے سوموٹو معاملات درج کرکے کارروائی کرنے، ضلعی سطح پر اومبڈس مین نظام رائج کرنے کے علاوہ دیگر اہم نکات کو شامل کیا گیا ہے۔تاہم، اس آرڈیننس کے باوجود سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا یہ اقدامات حقیقی طور پر مائیکرو فائنانس اداروں کے خلاف کارگر ثابت ہوں گے اور غریب عوام کو ان قرضوں کے بوجھ سے نجات ملے گی؟

کرناٹک حکومت کا حالیہ آرڈینینس مائیکرو فائنانس اداروں کے خلاف سخت اقدامات کا اشارہ ہے، لیکن اس میں نجی افراد کے ذریعے بلند شرح سود پر قرض فراہم کرنے اور بے رحمانہ وصولی کے خلاف مزید کارروائی کی ضرورت ہے۔ نجی قرض دہندگان کے ذریعے غریب عوام کو بلند شرح سود پر قرض دینا اور ان سے بے رحمی سے پیسہ وصول کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے، جو لوگوں کی مالی حالت کو مزید بدتر بنا دیتا ہے۔ اس کے لیے حکومت کو ضروری قانونی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ قرض دہندگان کے غیر قانونی اور ظالمانہ طریقوں پر قابو پایا جا سکے، اور غریب عوام کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جا سکے۔مائیکرو فائنانس کے استحصال سے بچنے اور غریب عوام کو تحفظ دینے کے لیے مزید اقدامات ضروری ہیں۔ حکومت کو یہ اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے کہ وہ غریبوں کے لیے بلا سود قرضوں کا پروگرام شروع کرے تاکہ وہ سودی کاروبار کے جال سے بچ سکیں۔ حکومت کو مائیکرو فائنانس کمپنیوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنی چاہیے تاکہ قرض داروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تدارک ہو سکے۔مائیکرو فائنانس کی منفی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے مالیاتی خواندگی کی ضرورت ہے تاکہ غریب لوگ سمجھ سکیں کہ سودی قرض ان کی حالت مزید خراب کر سکتے ہیں۔ مقامی کاروباروں کو فروغ دے کر غریبوں کو اقتصادی طور پر مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو ایسے پروگرامز متعارف کرانے چاہئیں جو افراد کو چھوٹے کاروبار شروع کرنے کی سہولت دیں۔

مائیکرو فائنانس کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا تھا، لیکن آج یہ نظام سود کے شکنجے میں گرفتار لوگوں کے لیے ایک لعنت بن چکا ہے۔ جب تک حکومت اس مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچے گی اور قرضوں کی شرائط اور وصولی کے طریقے شفاف نہیں ہوں گے، تب تک غریب عوام اس سسٹم کے بوجھ تلے دبے رہیں گے۔ ضروری ہے کہ قرض دینے والے اداروں کو سخت ضوابط کے تحت رکھا جائے تاکہ وہ عوام کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک نہ کریں۔

"یہ جو دھندلے سے منظر ہیں، یہ حقیقت کی پردہ پوشی ہے،
خوابوں کی طرح یہ سب کچھ ہے، جو اصل میں کچھ بھی نہیں ہے۔"
(احمد فراز)

یہ شعر مائیکرو فائنانس کے قرضوں کی حقیقت اور اس کے غریب عوام پر اثرات کو ظاہر کرتا ہے، جہاں خوابوں کی طرح قرض کی سہولتیں پیش کی جاتی ہیں، لیکن حقیقت میں یہ ایک بڑا دھوکہ ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ جب تک معاشرتی نظام میں مساوات اور انصاف کا توازن برقرار نہیں رہے گا، تب تک اس قسم کے مسائل اور بحران موجود رہیں گے۔

مائیکرو فائنانس کے نظام کی حقیقت اور اس کے اثرات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس نظام کے ذریعے غریبوں کو جو قرض فراہم کیا جاتا ہے، وہ ایک طرف ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن دوسری طرف وہ ان کے لیے تباہی کا سبب بنتا ہے۔ حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات امید افزا ہیں، لیکن اس کے لیے زمینی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اس نظام کو عوام کے لیے فائدہ مند بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ مائیکرو فائنانس اداروں کے غیر انسانی رویوں کا تدارک کرنے کے لیے مزید سخت قوانین کی ضرورت ہے تاکہ غریب عوام اس لعنت سے نجات پا سکیں۔

(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں، ان کے آرٹیکل سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)


Share: