
ہندوستان جیسے جمہوری و کثیرالمذاہب ملک میں ہر مذہب، رسم اور روایت کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ مذہبی آزادی، اظہارِ رائے، اور لباس کا حق ہر شہری کو مساوی طور پر حاصل ہے۔ مگر جب یہی اصول اکثریتی و اقلیتی شناخت کے پیمانے پر پرکھے جائیں، تو نہ صرف آئین کی روح مجروح ہوتی ہے، بلکہ سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
کرناٹک ان دنوں مذہبی آزادی، آئینی مساوات اور ریاستی رویوں کی سچائی کو پرکھنے والے سنگین سوالات کے سامنے کھڑا ہے۔ حالیہ دنوں میں دو علامتی واقعات نے ریاست کے کردار، سماجی توازن، اور سیاسی دیانت داری کو ایک بار پھر کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایک طرف ہندو برہمن طالب علم کو سی ای ٹی امتحان کے دوران "جنیوارا" (مقدس دھاگہ) اتارنے کا مشورہ دیا گیا، جس پر ریاستی حکومت نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے نہ صرف وزیر اعلیٰ کی سطح پر ملاقات کی، بلکہ چند ہی گھنٹوں میں متعدد وزراء میڈیا کے سامنے آ گئے، پورے واقعے کو تہذیبی وقار اور مذہبی جذبات سے جوڑ دیا گیا، اور یہ پیغام دیا گیا کہ مذہبی آزادی کو چھیڑنے کا انجام سخت ہو سکتا ہے۔مفت انجینئرنگ سیٹ، اور دوبارہ امتحان دینے کی سہولت دی گئی۔ میڈیا نے اسے ہندو مذہبی آزادی پر حملہ قرار دیا۔ یہ سارا معاملہ نہ صرف فوراً حل ہوا بلکہ اسے ریاستی وقار، تہذیبی اقدار اور اکثریتی جذبات کا سوال بنا کر پیش کیا گیا۔
یہ وہی ریاست ہے جہاں چند سال قبل مسلم طالبات کو محض اس لیے کالج میں داخل ہونے سے روکا گیا تھا کہ وہ حجاب پہن کر آتی تھیں۔ اڈپی کا وہ سرکاری کالج اس جبر کی علامت بن گیا جہاں علم سے زیادہ لباس اہم ہو گیا، اور طالبات کے مذہبی تشخص کو ان کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنا دیا گیا۔ ان بچیوں نے احتجاج کیا، عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا، تعلیم چھوٹ گئی، خواب ادھورے رہ گئے، مگر ریاستی مشینری نے کوئی نرم گوشہ نہ دکھایا۔ نہ اس وقت کے بی جے پی وزیر اعلیٰ نے ملاقات کی، نہ مفت تعلیم کی پیشکش ہوئی، اور نہ ہی سماج یا میڈیا نے ان کی اذیت کو جذباتی مسئلہ قرار دیا۔
یہ فرق محض دو مذہبی شعائر کا نہیں، بلکہ ریاستی ردعمل کے پیمانوں کا ہے۔ اگر جنیوارا ایک برہمن نوجوان کے مذہبی وقار کی علامت ہے، تو حجاب بھی ایک مسلمان لڑکی کی عفت، شناخت اور عبادت کا ترجمان ہے۔ مگر جب ریاست ایک کو فوراً گلے لگا لے اور دوسرے کو خاموشی سے نظر انداز کر دے، تو یہ صرف مذہبی تفریق نہیں بلکہ آئینی اصولوں سے انحراف ہے۔ آئینِ ہند کا آرٹیکل 25 ہر فرد کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دیتا ہے، مگر یہ آزادی شاید اکثریتی جذبات کے تابع ہوتی جا رہی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جس کالج کے پرنسپل نے مسلم طالبات کو حجاب کے سبب تعلیم سے روکا، اسے بعد میں کانگریس حکومت نے "بہترین استاد" کے اعزاز سے نوازا ۔ گویا اقلیتی شناخت کے انکار کو انعام میں بدلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف، جنیورا پر سوال کے محض ایک دن کے اندر حکومتی سطح پر جذبات کا طوفان اٹھا، اور جن لوگوں نے طالب علم سے یہ دھاگہ ہٹانے کو کہا تھا، انہیں معطل کر دیا گیا ۔ ایک مسئلہ تعلیم کے دروازے بند کرتا رہا، دوسرا انہیں کھولتا چلا گیا فرق صرف مذہب کا تھا۔
میڈیا کا کردار بھی اس دوہرے رویے کو مزید ابھارتا ہے۔ جنیوارا کے واقعے کو "مذہبی آزادی پر حملہ" کہا گیا، جب کہ حجاب پر پابندی کو "ڈسپلن کی بحالی" کے طور پر پیش کیا گیا۔ ایک کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش ہوئی، دوسرے کی بے بسی کو نظر انداز کر دیا گیا۔ کیا یہی ہمارا صحافتی توازن ہے؟ کیا میڈیا کا کام جذبات کو ہوا دینا ہے یا آئینی قدروں کی پاسداری کرنا؟
اس منظرنامے میں یہ بات افسوسناک ہے کہ دونوں حکومتوں بی جے پی ہو یا کانگریس کا طرز عمل اقلیتوں کے معاملے میں ایک جیسا نظر آتا ہے۔ صرف بیان بدلتے ہیں، پالیسی نہیں۔ مذہبی جذبات کی آڑ میں اکثریتی تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے، جب کہ اقلیتوں کے مذہبی جذبات کو انتظامی مسائل میں لپیٹ کر دبا دیا جاتا ہے۔
حجاب پر پابندی کا نفسیاتی اور تعلیمی اثر واضح ہے۔ کئی طالبات نے تعلیم چھوڑی، کچھ نے حجاب ترک کیا، اور بعض نے ذہنی دباؤ میں خود کو الگ تھلگ محسوس کرنا شروع کر دیا۔ ان علاقوں میں جہاں یہ پابندی نافذ ہوئی، وہاں مسلم لڑکیوں کی تعلیمی حاضری میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ مگر نہ کوئی حکومتی رپورٹ آئی، نہ کوئی تعلیمی ازالہ ہوا۔
حجاب تنازع کی ایک اہم آواز، عالیہ اسعدی، جو سپریم کورٹ میں پٹیشنر بھی ہیں، نے اپنے ایکس پر لکھا ہے کہ "جنیوارا ایک برہمن کے لیے جتنا اہم ہے، حجاب ہمارے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے۔ تو کیا ایک کو روکنے کا درد اور دوسرے کو روکنے کا دکھ مختلف ہے؟ جنیوارا پر روکنے والے افسر فوراً معطل ہوئے، مگر حجاب پہننے والی لڑکیوں کی تعلیم بند کرنے والوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ یہ ہے ہمارا نظام!"حقیقت یہ ہے کہ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں مذہبی علامات کو سیاست، میڈیا، اور انتظامیہ اپنی اپنی سہولت کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ جنیوارا ہو یا حجاب دونوں کا تقدس اپنی جگہ قائم ہے۔ مگر اگر ایک کا احترام واجب ہو اور دوسرے کا انکار جائز، تو یہ صرف مذہبی امتیاز نہیں بلکہ ہندوستان کی جمہوری روح کے خلاف ہے۔ ہم جنیوارا کی تضحیک کو بھی غلط سمجھتے ہیں، مگر حجاب کی تضحیک پر خاموشی اختیار کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ اگر مذہب کی آزادی سب کے لیے ہے، تو اس پر عمل کی آزادی بھی سب کے لیے کیوں نہیں؟یہ سوال محض مسلم برادری کا نہیں، بلکہ ہندوستان کے ضمیر کا ہے اور ضمیر اگر خاموش ہو جائے، تو آئین محض کاغذی دستاویز بن کر رہ جاتا ہے۔
امتحانی مراکز میں مذہبی علامتوں پر پابندی مسئلہ کا حل نہیں، بلکہ اصل توجہ اس ٹیکنالوجی پر ہونی چاہیے جو نقل نویسی کو روکے۔مصنوعی ذہانت کیمرے، بائیو میٹرک سسٹم، بلاکچین پر مبنی نگرانی جیسے جدید حل اپنائے جائیں۔یکساں پالیسی تشکیل دی جائے جو تمام مذاہب کے افراد کو برابر عزت دے۔سیاست کو مذہب سے پاک رکھتے ہوئے، اقلیتوں کے احساسات اور اکثریتی جذبات کے درمیان پل بنایا جائے، خندق نہیں۔
(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)