
گلبرگہ،24/اپریل (ایس او نیوز /راست ) گلبرگہ کے معروف قانون داں ڈاکٹر مقصود افضل جاگیردار نے کہا کہ مودی حکومت نے وقف ایکٹ کو غیر مؤثر بنانے کے بعد اب پلیسس آف ورشپ ایکٹ کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس قانون کو ختم کرکے بی جے پی حکومت مسلمانوں کی تاریخی مساجد پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار کرے گی۔ ایڈوکیٹ جاگیردار نے کہا کہ دونوں قوانین کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے اور اب جبکہ وقف ایکٹ کو کمزور کر دیا گیا ہے، حکومت اپنی عددی طاقت کے بل پر پلیسس آف ورشپ ایکٹ میں بھی ترمیم کر سکتی ہے۔
انہوں نے وقف ترمیمی قانون 2025 کو مکمل طور پر غیر آئینی اور غیر دستوری قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور اس کی 44 متنازعہ ترامیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ سپریم کورٹ کے انٹریم آرڈر کا خیر مقدم کرتے ہوئے، ایڈوکیٹ جاگیردار نے کہا کہ یہ حکم متاثرہ فریقین کے لیے وقتی راحت ہے۔
افضل خان میموریل ٹرسٹ کی جانب سے ایوانِ بندہ نواز گلبرگہ میں "وقف ایکٹ 1995 اور وقف ترمیمی قانون 2025 – ایک تقابلی مطالعہ" کے عنوان پر منعقدہ سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے ایڈوکیٹ جاگیردار نے کہا کہ وہ 1998 سے وقف قانون کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وقف ایکٹ 1995 کے تحت سیکشن 40 کے ذریعے وقف بورڈ کو مقبوضہ جائیدادوں کا قبضہ واپس حاصل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، لیکن نئے قانون میں یہ اختیار ڈپٹی کمشنر کو منتقل کر دیا گیا ہے جس پر اب ہنگامہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے قانون میں "ایڈورس پوزیشن" اور "لمیٹیشن ایکٹ" جیسے عناصر شامل کیے گئے ہیں، جو وقف جائیدادوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ ایڈوکیٹ جاگیردار نے سوال اٹھایا کہ اگر بارہ سال تک جائیداد پر قبضہ کرنے والا شخص اس قانون کے تحت مالک بن سکتا ہے، تو صدیوں سے قابض مسلمان وارث کیوں نہیں بن سکتا؟
انہوں نے الزام عائد کیا کہ کئی درگاہیں اور مساجد غیر مسلموں کے قبضے میں ہیں، لیکن وقف بورڈ صرف آمدنی والی جائیدادوں پر توجہ دے رہا ہے۔ انہوں نے سندگی تعلقہ کے گاؤں ینکنچی، کوڈیکل اور انڈی تعلقہ میں موجود درگاہوں کی مثالیں پیش کیں جنہیں مبینہ طور پر مندر میں تبدیل کر دیا گیا ہے یا جن پر غیر مسلموں کا ناجائز قبضہ ہے۔
سیمینار میں ایڈوکیٹ سید مظہر حسین نے بھی خطاب کرتے ہوئے وقف ترمیمی قانون 2025 کی خامیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت وقف جائیدادوں پر لمیٹیشن ایکٹ کا اطلاق، ڈپٹی کمشنر کو عدالتی اختیارات دینا، وقف بائی یوزر کو ہٹانا اور غیر مسلموں کو وقف بورڈ اور کونسل میں شامل کرنا جیسے اقدامات وقف نظام کے لیے نقصان دہ ہیں۔
سینئر صحافی عزیز اللہ سرمست نے اپنے خطاب میں کہا کہ وقف کے اصل مقصد پر آج تک مسلمانوں نے غور نہیں کیا، بلکہ وقف جائیدادوں کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔ انہوں نے زور دیا کہ وقف بورڈ کو چاہیے کہ وہ ایسی مساجد اور درگاہوں کی نشاندہی کرے جو قبضے میں ہیں، ان کی مرمت کرے اور دوبارہ وقف ریکارڈ میں درج کرے۔
اس موقع پر سوال و جواب کا سیشن بھی رکھا گیا، جس میں ایڈوکیٹ جاگیردار نے حاضرین کے سوالات کے اطمینان بخش جوابات دیے۔ ساتھ ہی ایڈوکیٹ فہمید خان اور ایڈوکیٹ جاگیردار کے درمیان وقف ایکٹ کی خامیوں اور خوبیوں پر ایک مثبت اور علمی بحث بھی ہوئی، جس نے سامعین کو قانون کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد فراہم کی۔
جلسہ کا آغاز قاری بشیر عالم کی تلاوت سے ہوا اور اسد علی انصاری نے نعت پیش کی۔ نواب خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ پروگرام میں شہر کی کئی معزز شخصیات نے شرکت کی جن میں مولانا محمد نوح، ایڈوکیٹ عبدالجبار گولہ، ناصر حسین استاد، قاضی رضوان الرحمن صدیقی، ایاز الدین پٹیل، نذیر الدین متولی، عبد القدیر (ملت ہیلپ لائن)، شاہ نواز خان (شاہین)، ایڈوکیٹ طبیب اور دیگر شامل تھے۔