نئی دہلی، 19/ اپریل (ایس او نیوز /ایجنسی)سپریم کورٹ نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے ایک فیصلے پر نہ صرف حیرت کا اظہار کیا بلکہ اسے قانونی لحاظ سے ناقابلِ قبول قرار دیا۔ یہ معاملہ ایک زیرِ سماعت ملزم کی ضمانت کی عرضی سے متعلق تھا، جس میں ہائی کورٹ نے صرف اس بنیاد پر ضمانت دینے سے انکار کر دیا کہ ملزم نے اپنی سزا کا نصف حصہ ابھی تک مکمل نہیں کیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس اُجول بھوئیاں پر مشتمل بنچ نے ہائی کورٹ کے اس موقف کو قانون سے ماورا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی اصول یا ضابطہ قانون میں موجود ہی نہیں، اور یہ فیصلہ کسی "نئے قانون کی ایجاد" کے مترادف ہے۔
دراصل مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ایک ایسے شخص کی ضمانت عرضی خارج کر دی تھی، جس کی جیب سے رشوت کے پیسے برآمد ہوئے تھے۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جب تک ملزم اپنی نصف سزا نہیں کاٹ لیتا، تب تک ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ یہ ملزم کی دوسری ضمانت عرضی تھی جو پہلی عرضی خارج ہونے کے محض 2 ماہ بعد داخل کی گئی تھی۔ اسی لیے ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ملزم کو ضمانت کا مطالبہ دوبارہ تبھی کرنی چاہیے جب وہ اپنی نصف سزا کاٹ چکا ہو۔ اس فیصلے کے تعلق سے سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’ہم حیران ہیں کہ ہائی کورٹ نے قانون کا ایسا نیا اصول بنا دیا، جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جب اوپری عدالتوں میں اپیلوں کی تعداد بہت زیادہ ہو اور جلد سماعت کی کوئی امید نہ ہو تو ایسے معاملوں میں قصورواروں کو ضمانت ملنی چاہیے۔ بنچ نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ کو موجودہ قوانین کی بنیاد پر فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ کسی کو مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ سپریم کورٹ تک صرف اس لیے پہنچے کیونکہ ذیلی عدالت یا ہائی کورٹ نے قانون کا درست استعمال نہیں کیا۔