
منگلورو، 2 مئی (ایس او نیوز) ہندوتوا نظریات سے وابستہ کارکن اور راوڈی شیٹر سہاس شیٹی جس پر محمد فاضیل نامی مسلم نوجوان کے قتل کا بھی الزام تھا، جمعرات شب کو ایک گینگ نے تلوار اور دھاردار ہتھیاروں کے ذریعے بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا۔ واردات بجپے کے کنی پڈاؤ علاقے میں رات قریب ساڑھے اٹھ بجے پیش آئی۔
ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق سہاس شیٹی پر کل پانچ فوجداری مقدمات درج تھے، جن میں چار منگلورو شہر کے دائرہ اختیار میں اور ایک ضلع جنوبی کنڑ ا کے بیلتنگڈی پولیس تھانے میں تھا۔ وہ 2016 اور 2020 کے کئی مقدمات میں بری ہو چکا تھا، جب کہ اسے2016 میں بیلتنگڈی تھانے میں درج ایک کیس میں سزا سنائی گئی تھی۔ 2020 میں اقدام قتل اور درج فہرست ذات و قبائل پر مظالم کے قانون کے تحت مقدمہ، اور 2022 میں سورتکل کے محمد فاضل قتل کیس کے سنگین مقدمات ابھی بھی زیر سماعت تھے۔
ضلع کے پولیس کمشنر انوپم اگروال نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ واقعہ رات تقریباً 8:27 بجے پیش آیا، جب سہاس اپنے ساتھیوں سنجے، پرجول، انوِت، لتیش اور ششانک کے ساتھ انووا کار میں سفر کر رہا تھا۔ حملہ آوروں نے، جو ایک سوئفٹ کار اور پک اپ گاڑی میں تھے، راستے میں ہی اس کی گاڑی کو گھیر لیا اور بڑی بے رحمی سے حملہ کر تے ہوئے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بتایا گیا ہے کہ دھارردار آلات سے حملے کے فوری بعد اسے خون میں لت پت حالت میں اے جے اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ واردات میں اس کا ایک ساتھی بھی زخمی ہوا ہے جس کا علاج جاری ہے۔
بجپے پولیس تھانے میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور پولیس نے تحقیقات کے لیے اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس کی نگرانی میں چار خصوصی ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔
واقعے کے بعد شہر میں کشیدگی پھیل گئی، لیکن پولس نے سخت حفاظتی انتظامات نافذ کرتے ہوئے اضافی فورس تعینات کردیا۔ پولیس کمشنر انوپم اگروال کے مطابق شہر بھر میں بیریکیڈز اور ناکے لگا دیے گئے ہیں، اور دیگر اضلاع سے سینئر افسران کو طلب کیا گیا ہے تاکہ قانون و نظم ونسق کو برقرار رکھا جا سکے۔
اس قتل کے ساتھ ہی ساحلی کرناٹک کے اس حساس کمیونل خطے میں ایک بار پھر کشیدگی پھیل گئی ہے جہاں پچھلے برسوں میں خون کے بدلے خون کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ 2022 میں بی جے پی رہنما پروین نیتارو کے قتل کے بعد اس وقت کی ریاستی بی جے پی حکومت کو ہندوتوا کارکنوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے خاصی کوششیں کرنی پڑی تھیں۔
تاہم محمد فاضل کے قتل پر سرکاری رویہ سوالات کی زد میں آ گیا تھا، کیونکہ بی جے پی قیادت نے نیتارو کے خاندان سے تعزیت کی اور معاوضے کا اعلان کیا، مگر فاضل کے اہل خانہ سے کسی قسم کی ہمدردی کا اظہار نہیں کیا، جس سے جانب دارانہ سلوک کے الزامات بھی لگے تھے۔
سہاس کی موت کے بعد اے جے اسپتال کے باہر ہندو تنظیموں کے کارکنوں کی بڑی تعداد جمع ہوئی۔ مقامی اراکین اسمبلی ڈاکٹر وائی. بھارت شیٹی، ڈی. ویدویاس کامتھ اور سابق رکن پارلیمان نلین کمار کٹیل نے اسپتال کا دورہ کیا۔ کٹیل نے اس قتل کو منصوبہ بند اور ٹارگیٹڈ قرار دیتے ہوئے قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔
ادھر کچھ مبصرین نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ قتل حالیہ دنوں میں کڈوپو علاقے میں ہونے والے ایک اور قتل کا انتقامی عمل بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم، پولیس کمشنر نے واضح کیا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ جاری ہے، جس کی مدد سے مجرموں کی شناخت اور محرکات کی وضاحت کی جائے گی۔