نئی دہلی ، 10/فروری (ایس او نیوز/ایجنسی )مرکزی بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سیاسی حلقوں میں اس پر گرما گرم بحث جاری ہے، اور ہر کوئی اپنی سیاسی ضرورت اور نقطہ نظر کے مطابق اس کا تجزیہ کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بجٹ کو ایک انقلابی قدم قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ بھارت کو ایک ترقی یافتہ معیشت بنانے میں مددگار ثابت ہوگا اور عوام کے خوابوں کو حقیقت میں بدل دے گا۔ ان کے بقول، یہ بجٹ سرمایہ کاری کو فروغ دے گا، روزگار کے مواقع پیدا کرے گا اور معیشت کو مستحکم کرے گا۔ دوسری جانب، اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اسے ایک "انتخابی حربہ" قرار دیا ہے، جس کے تحت عوام کو محض وقتی ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے، جبکہ ملک کے بنیادی معاشی مسائل بدستور برقرار رہیں گے۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے راہل گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ملکی معیشت پر بولنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ یو پی اے کے دورِ حکومت میں ملک کی معیشت بدترین بحران کا شکار تھی، صنعت کار ملک چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، اور حکومت نے بڑی محنت کے ساتھ معیشت کو بحال کیا ہے۔ تاہم، بہتر ہوتا کہ وزیر خزانہ کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل سے تمام اعداد و شمار اکٹھے کر کے عوام کے سامنے پیش کر دیتیں، تاکہ لوگ خود فیصلہ کر سکتے کہ حقیقت کیا ہے۔
وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے 25 کروڑ لوگوں کو خطِ افلاس سے اوپر لایا، جبکہ سرکاری دعووں کے مطابق 80 کروڑ افراد کو مفت اناج فراہم کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں دعووں میں واضح تضاد ہے۔ حکومت ایک طرف یہ کہہ رہی ہے کہ معیشت ترقی کر رہی ہے اور ملک دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے، جبکہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے ہندوستان دنیا کے 100 سے بھی زیادہ ممالک سے پیچھے ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کا فائدہ صرف بڑے کارپوریٹس کو ہو رہا ہے جبکہ عام آدمی کے لیے زندگی مزید مشکل ہو چکی ہے۔ گراں بازاری آسمان چھو رہی ہے اور آمدنی مستحکم بھی نہیں ہے بلکہ افراط زر کے حساب سے گھٹتی جا رہے ہے۔
حکومت نے اس بار انکم ٹیکس میں بڑی راحت دی ہے، جس کا فائدہ متوسط اور تنخواہ دار طبقے کو ہوگا۔ اب 12 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے شہری کو انکم ٹیکس نہیں دینا ہوگا، اور اگر اسٹینڈرڈ کٹوتی کو شامل کیا جائے تو یہ رقم 12 لاکھ 75 ہزار روپے ہو جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس بریکٹ میں کتنے لوگ آتے ہیں؟ ملک میں سرکاری ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں اور اب زیادہ تر ملازمین ٹھیکے پر یا نجی ایجنسیوں کے ذریعے بھرتی کیے جا رہے ہیں، جن کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں۔ جہاں پہلے ایک سرکاری ملازم کو 80-90 ہزار روپے ملتے تھے، وہیں اب یہی نوکری 20-25 ہزار میں دی جا رہی ہے، اور ان ملازمین کو نہ تو کوئی سماجی تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی وہ عزت جو مستقل سرکاری ملازمین کو حاصل تھی۔
عام شہریوں کو سب سے زیادہ نقصان بالواسطہ ٹیکسوں (جی ایس ٹی) کی وجہ سے ہو رہا ہے، جسے لوگ "گبر سنگھ ٹیکس" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ ٹیکس ملک کے غریب ترین افراد کو بھی دینا پڑتا ہے اور مختلف اشیا اور خدمات پر یہ 28 فیصد تک ہوتا ہے۔ ہندوستان کی تقریباً 140-145 کروڑ آبادی میں انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد صرف 10 کروڑ کے قریب ہے، جبکہ باقی 130-135 کروڑ لوگ جی ایس ٹی کے ذریعے بالواسطہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ کوئی بھی حکومت انکم ٹیکس میں ریلیف دے کر اس کی بھرپائی جی ایس ٹی کے ذریعے کرتی ہے، جس کا اثر غریب اور متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔ فلاحی حکومتوں کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے۔
ملک میں متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی قوتِ خرید کم ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے طلب (ڈیمانڈ) میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جب طلب کم ہوگی تو پیداوار بھی گھٹے گی، اور جب پیداوار کم ہوگی تو لازمی طور پر روزگار کے مواقع بھی سکڑیں گے۔ معیشت کی یہ سائیکل ایک طے شدہ اصول پر کام کرتی ہے۔ رواں مالی سال میں شرحِ نمو 6.4 فیصد رہی ہے، جو پچھلے 4-5 برسوں میں سب سے کم بتائی جاتی ہے۔ اقتصادی جائزے کے مطابق یہ 6.3 سے 6.8 فیصد کے درمیان رہے گی، جبکہ 2047 تک ترقی یافتہ ہندوستان بنانے کے لیے کم از کم 8 سے 8.5 فیصد کی شرح نمو درکار ہے، جو فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
اس بجٹ میں دو اہم مسائل پر کوئی گفتگو نہیں کی گئی اور وہ ہیں بے روزگاری اور غیر ملکی قرض۔ 2014 تک ہندوستان پر 55 لاکھ کروڑ روپے کا قرض تھا، جو اب بڑھ کر تقریباً 200 لاکھ کروڑ روپے ہو چکا ہے۔ یعنی آزادی کے 67 سالوں میں مجموعی قرض 55 لاکھ کروڑ تھا، جبکہ صرف 10 سال میں یہ مزید 150 لاکھ کروڑ بڑھ چکا ہے۔ اس قرض پر ہر سال تقریباً 20 لاکھ کروڑ روپے سود ادا کیا جا رہا ہے، جو معیشت پر ایک بڑا بوجھ ہے۔
روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن ڈیجیٹلائزیشن، آٹومیشن اور کمپیوٹرائزیشن کی وجہ سے روایتی نوکریاں کم ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، پہلے بینک میں 300 کھاتوں کو سنبھالنے کے لیے ایک کلرک کی ضرورت ہوتی تھی، لیکن اب ایک کلرک کمپیوٹر کی مدد سے 5000 کھاتے سنبھال سکتا ہے۔ اسی طرح، ریلوے اور دیگر محکموں میں بھی نوکریاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اس مسئلے پر تفصیل سے گفتگو کی اور اعتراف کیا کہ ان کی حکومت میں بھی بے روزگاری ایک مسئلہ تھا، لیکن منریگا جیسی اسکیموں کے ذریعے دیہی روزگار کے مواقع پیدا کیے گئے تھے۔
آج حالات یہ ہیں کہ بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ 2018 میں وزارت محنت اور این ایس ایس او نے 50 سال میں سب سے زیادہ 8 فیصدی بے روزگاری کا ڈیٹا جاری کیا تھا، اس کے بعد سے حکومت نے بے روزگاری کے اعداد و شمار جاری کرنا ہی بند کر دیے ہیں۔
بجٹ کو اپنے نظریہ سے دیکھنے کا رجحان کوئی نئی بات نہیں، لیکن کچھ تلخ حقائق ایسے ہیں جن سے حکومت، اس کے حامی اور مخالفین آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ بڑھتا ہوا قرض، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی عوام کے لیے شدید پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں، اور محض لالی پاپ دے کر عوام کو بہلانے کی کوششیں زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہوں گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معیشت میں توازن پیدا کرے اور عوام کے حقیقی مسائل کا حل نکالے۔