ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپیشل رپورٹس / شدّت پسند یتنال کی معطلی ، کرناٹک میں بی جے پی کی بدلتی حکمت عملی؟۔۔۔۔۔۔ از: عبدالحلیم منصور

شدّت پسند یتنال کی معطلی ، کرناٹک میں بی جے پی کی بدلتی حکمت عملی؟۔۔۔۔۔۔ از: عبدالحلیم منصور

Sat, 29 Mar 2025 10:59:17    S O News

کرناٹک کے بی جے پی لیڈر و رکن اسمبلی بسون گوڈا پاٹل یتنال کی معطلی نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ پارٹی نے انہیں چھ سال کے لیے معطل کر دیا اور وجہ صرف اتنی بتائی گئی کہ وہ "بہت زیادہ بولتے ہیں"۔ مگر کیا واقعی صرف "بولنا" اتنا بڑا جرم تھا؟ یا پھر یہ بی جے پی کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ شدت پسند لیڈروں کو آہستہ آہستہ منظر سے غائب کر رہی ہے؟۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پچھلی دہائی میں ہندوستانی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کر چکی ہے، مگر اس کے کئی لیڈران اپنے متنازع اور مسلم مخالف بیانات کے باعث خبروں میں رہے ہیں۔ کرناٹک کے سینئر رہنما اور وجے پور کے ایم ایل اے یتنال بھی انہی میں شامل ہیں، جن کے بیانات نہ صرف نفرت انگیز بلکہ فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دینے والے بھی تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کے ان تمام بیانات پر بی جے پی نے کبھی کوئی کارروائی نہیں کی، مگر جب انہوں نے پارٹی کی قیادت کو چیلنج کیا تو انہیں معطل کر دیا گیا۔

یہ پہلا موقع نہیں جب‌ کرناٹک میں بی جے پی نے اپنے شدت پسند لیڈروں کو پس منظر میں دھکیلا ہو۔ اس سے پہلے بھی ایشورپا، پرتاپ سمہا، اننت کمار ہیگڈے جیسے کئی لیڈران یا تو خاموش کر دیے گئے یا انہیں سیاسی طور پر غیر مؤثر بنا دیا گیا۔ کیا بسون گوڈا پاٹل یتنال بھی اسی انجام کو پہنچیں گے، یا پھر یہ معطلی محض ایک وقتی حکمت عملی ہے؟

یتنال کی معطلی کو کرناٹک کی بی جے پی میں جاری اندرونی گروہ بندیوں کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ یڈیورپا گروپ کی برتری کو مزید مستحکم کرنے کے طور پر بھی لیا جا رہا ہے، جو کرناٹک میں لنگایت ووٹ بینک پر سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یڈیورپا، جو اس فرقے کے ناقابل تسخیر رہنما سمجھے جاتے ہیں، اب بھی پس پردہ بڑی قوت ہیں، جبکہ ان کے بیٹے بی وائی وجیندر بی جے پی کے ریاستی صدر کے طور پر ابھرے ہیں۔ یتنال کا کھلم کھلا انداز اور قیادت پر نکتہ چینی انہیں یڈیورپا گروپ کے لیے ایک چیلنج بنا رہی تھی، جس کے نتیجے میں ان کی معطلی عمل میں آئی۔ یہ کوئی نئی حکمت عملی نہیں، کیونکہ اس سے پہلے بھی بی جے پی قیادت نے لال کرشن آڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی جیسے قد آور لیڈروں کو بتدریج غیر مؤثر بنا دیا۔

بسون گوڈا پاٹل یتنال کا شمار کرناٹک کے متنازع مگر بااثر سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ وجے پور (بیجاپور) سے تعلق رکھتے ہیں، جو تاریخی اور مسلم اکثریتی خطہ مانا جاتا ہے۔ یتنال نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جنتا دل سے کیا، مگر بعد میں بی جے پی میں شامل ہو کر مرکزی وزیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ ان کے مسلم مخالف بیانات اور شدت پسند رویے نے انہیں سخت گیر ہندوتوا سیاست کا نمایاں چہرہ بنا دیا۔ وہ وقف املاک کے خلاف بولنے، مسلم ووٹوں کی مخالفت کرنے، اور اشتعال انگیز تقاریر کرنے کی وجہ سے سرخیوں میں رہے۔ ان کے حلقے میں، جہاں مسلم اور دیگر پسماندہ طبقات کی بڑی تعداد موجود ہے، ان کی سیاست ہمیشہ تفریق اور تنازع کی بنیاد پر آگے بڑھتی رہی۔

یتنال کا سیاسی کیریئر تنازعات سے بھرا رہا ہے۔ انہوں نے "وقف ہٹاؤ، دیش بچاؤ" جیسے متنازع نعرے دیے اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں پیش پیش رہے۔ اس کے باوجود بی جے پی کی قیادت نے کبھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کی، بلکہ ان کے بیانات کو نظر انداز کرتی رہی۔ مگر جیسے ہی انہوں نے پارٹی قیادت کو للکارا اور اندرونی معاملات پر تنقید کی، انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔

یہ سوال اہم ہے کہ بی جے پی نے اچانک یہ فیصلہ کیوں کیا؟ کیا واقعی پارٹی سخت گیر نظریات سے دور ہو رہی ہے، یا یہ محض ایک چال ہے؟ ماضی میں بی جے پی کی یہی پالیسی رہی ہے کہ شدت پسندی کو ایک حد تک برداشت کیا جائے، مگر جیسے ہی کوئی لیڈر پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہونے لگے، اسے منظر سے ہٹا دیا جائے۔بی جے پی کی اس حکمت عملی کا شمالی اور جنوبی ہندوستان میں فرق نظر آتا ہے۔ شمالی بھارت میں ہندوتوا کے نظریے کو کھل کر فروغ دیا جاتا ہے اور متنازع لیڈران کو مکمل آزادی دی جاتی ہے، مگر جنوبی ہندوستان، خاص طور پر کرناٹک میں، بی جے پی کو ایک متوازن سیاست اپنانی پڑتی ہے۔ یہاں بی جے پی معتدل رویہ اپناتی ہے۔ کرناٹک، کیرلا اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں ترقی اور ثقافتی تشخص پر زور دیا جاتا ہے۔

کرناٹک میں بی جے پی کو ایک مضبوط سیاسی طاقت کا سامنا ہے، اور مسلم ووٹوں کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں شدت پسند لیڈران کی موجودگی پارٹی کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے، اسی لیے یتنال جیسے عناصر کو آہستہ آہستہ منظر سے ہٹایا جا رہا ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی شدت پسند لیڈران سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار نہ کر رہی ہو، بلکہ یہ صرف ایک عارضی حکمت عملی ہو۔ حالیہ انتخابات میں بی جے پی کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ ایک متوازن چہرہ پیش کرے، تاکہ عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ وہ صرف ہندوتوا سیاست پر منحصر نہیں، بلکہ ترقیاتی ایجنڈے پر بھی کام کر رہی ہے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے؟

یتنال کی معطلی پر مسلم برادری کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ حلقوں نے اسے ایک مثبت قدم قرار دیا، مگر کئی مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صرف معطلی کافی نہیں، بلکہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ ایسے سیاستدانوں کو ہمیشہ کے لیے سیاسی میدان سے باہر کیا جا سکے جو فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں۔

بی جے پی کی طرف سے یتنال کی معطلی کے ساتھ ہی ایک اور دلچسپ اقدام سامنے آیا ہے۔ پارٹی نے غریب مسلمانوں کو "سوغات مودی" کے تحت عید کے تحائف دینے کی مہم شروع کی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صرف مسلم ووٹوں کو لبھانے کے لیے ایک انتخابی حربہ ہے، جبکہ کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ بی جے پی عالمی سطح پر مسلم ممالک میں اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا بی جے پی اپنی پالیسی میں واقعی کوئی بڑی تبدیلی لا رہی ہے یا یہ سب ایک سیاسی چال ہے؟ کرناٹک کی سیاست میں یتنال کی معطلی ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتی ہے، جس کے اثرات طویل المدتی ہوں گے۔

(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)


Share: