نئی دہلی، 27/ مارچ (ایس او نیوز /ایجنسی) لوک سبھا میں حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا پر آج سنگین الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ایوان میں بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ نے 26 مارچ کو اس تعلق سے کہا کہ لوک سبھا کی کارروائی ’غیر جمہوری طریقہ‘ سے چل رہی ہے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اہم ایشوز کو اٹھانے کے لیے وہ بار بار گزارش کرتے ہیں، لیکن اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ راہل گاندھی کے مطابق جمہوریت میں حکومت اور حزب اختلاف کو خاص مقام حاصل ہے، لیکن اس ایوان میں حزب اختلاف کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
راہل گاندھی نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’ایک کنشن ہے، جس کے مطابق حزب اختلاف کے قائد کو بولنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ حالانکہ جب بھی میں کچھ بولنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو مجھے بولنے نہین دیا جاتا۔ یہاں ہم جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں، ہمیں کہنے نہیں دیا جاتا۔ میں نے کچھ نہیں کیا، میں بالکل خاموشی سے بیٹھا تھا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’یہاں صرف حکومت کی جگہ ہے۔ اس دن وزیر اعظم مودی نے کمبھ میلے کے بارے میں بولا۔ میں اس میں اپنی بات جوڑنا چاہتا تھا۔ میں بے روزگاری کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن مجھے نہیں بولنے دیا گیا۔‘‘
اس بارے میں کانگریس رکن پارلمینٹ گورو گگوئی نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’پارلیمانی روایت ہمیں بتاتی ہے کہ ایوان جتنا برسراقتدار طبقہ کا ہے، اتنا ہی حزب اختلاف کا بھی ہے۔ جب بھی اپوزیشن لیڈر ایوان میں آتے ہیں اور ایوان مین اپنی بات رکھنا چاہتے ہیں، تو انھیں کچھ اصول دکھا کر لوگوں کے ایشوز اٹھانے کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔‘‘ وہ اپنی بات میں یہ بھی جوڑتے ہیں کہ ’’اگر حکومت کا کوئی وزیر، کوئی بی جے پی رکن پارلیمنٹ صرف کھڑا ہو جاتا ہے تو ان کا مائک شروع ہو جاتا ہے اور انھیں بولنے کا موقع مل جاتا ہے۔‘‘
راہل گاندھی کے بیان پر ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ شتروگھن سنہا کا رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’راہل گاندھی نے درست بات کہی ہے۔ راہل گاندھی ہمارے حزب اختلاف کے قائد ہیں، وہ ہم سبھی کے لیڈر ہیں۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے کہ انھیں بولنے نہیں دیا گیا اور آج بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ قابل مذمت ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’میں اسپیکر کی بہت عزت کرتا ہوں، لیکن مجھے نہیں پتہ کہ ان پر کیا دباؤ ہے۔ حزب اختلاف میں ایک سے بڑھ کر ایک دمدار لیڈر ہیں، انھیں بھی اپنی بات رکھنے کا موقع ملنا چاہیے۔‘‘