مرکزی حکومت کے منظور کردہ وقف ترمیمی ایکٹ پر معروف نیوز پورٹل بی بی سی (انگلش) نے نیاز فاروقی کی ایک رپورٹ چھاپی ہے، جس کا اردو ترجمہ یہاں ان کے شکرئے کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے:
ایک متنازعہ نیا قانون، جو ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے متعارف کروایا گیا ہے، نے "وقف" پر توجہ مرکوز کر دی ہے — یعنی وہ جائیدادیں جو ہندوستانی مسلمانوں نے صدیوں کے دوران عطیہ کی تھیں۔
وقف ایک روایت ہے جو کئی مسلم اکثریتی ممالک میں رائج ہے، جہاں ان جائیدادوں کو اسکولس، یتیم خانے، اسپتال، بینک، اور قبرستان چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں یہ جائیدادیں مختلف ریاستی حکومتوں کے تحت قائم وقف بورڈس کے ذریعہ چلائی جاتی ہیں۔ ایک مرکزی ادارہ، جسے "سینٹرل وقف کونسل" کہا جاتا ہے، ان کے کام کی نگرانی کرتا ہے۔
لیکن ان زمینوں کے ہزاروں ٹکڑے، جن کی مالیت اربوں روپے ہے، دہائیوں سے قانونی تنازعات کا شکار ہیں۔
مثال کے طور پر، ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں ایک ہزار سے زائد ایسی جائیدادیں موجود ہیں، جن میں مساجد، قبرستان اور مقبرے شامل ہیں۔ یہ جائیدادیں شہر کی صدیوں پرانی اسلامی وراثت کی علامت ہیں اور انہیں مذہبی، تعلیمی اور فلاحی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے تاکہ کمیونٹی کو فائدہ پہنچے۔ ان میں سے کم از کم 123 جائیدادیں دہلی کے وقف بورڈ اور مرکزی حکومت کے درمیان طویل عرصے سے جاری ملکیت کے تنازعے میں پھنسی ہوئی ہیں۔
یہ صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے ان ہزاروں مقدمات کا، جو ہندوستان بھر میں وقف بورڈس نجی فریقین — خواہ مسلمان ہوں یا غیرمسلم — اور سرکاری محکموں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ ان مسائل میں سے ایک ہے جنہیں مرکزی حکومت نئے قانون، یعنی وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے ذریعے حل کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ اس قانون نے موجودہ نظام میں درجنوں تبدیلیاں کی ہیں۔
کئی مسلم رہنماؤں اور اپوزیشن پارٹیوں نے اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اور اسے اقلیتوں کے حقوق کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ بعض ریاستوں میں اس کے خلاف مظاہرے اور تشدد بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بھی اس قانون کے خلاف دائر کئی درخواستوں پر سماعت شروع کر دی ہے۔
وقف سے متعلق تنازعات کی متعدد وجوہات ہیں — زمین کے حقوق کی غیر وضاحت، زبانی طور پر وقف قرار دی گئی جائیدادیں، قوانین میں تضاد، زمین مافیا کے ساتھ ملی بھگت اور برسوں سے جاری سرکاری غفلت۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں کل 872,852 وقف جائیدادیں (کاغذات میں) موجود ہیں، جن میں سے کم از کم 13,200 قانونی مقدمات میں الجھی ہوئی ہیں، 58,889 پر ناجائز قبضہ ہو چکا ہے، اور 436,000 سے زائد کی حیثیت غیر واضح ہے۔