نئی دہلی، 5/اپریل (ایس او نیوز /ایجنسی)متھرا کی شاہی عیدگاہ کے معاملے میں قانونی پیچیدگیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ ہندو فریق نے، جو اس مقام کو کرشن جنم بھومی قرار دیتا ہے، الہ آباد ہائی کورٹ میں اپنی درخواست میں ترمیم کرتے ہوئے یہ نیا مؤقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ شاہی عیدگاہ محکمہ آثار قدیمہ کے تحت ایک محفوظ عمارت ہے، اس لیے اس میں نماز کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ساتھ ہی یہ مؤقف بھی پیش کیا گیا ہے کہ چونکہ یہ عمارت آثار قدیمہ کے قانون کے تحت آتی ہے، لہٰذا اس پر پلیس آف ورشپ ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ہندو فریق نے اس بنیاد پر عدالت سے محکمہ آثار قدیمہ کو بھی مقدمے میں فریق بنانے کی اجازت مانگی، جسے عدالت نے منظور کر لیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد معاملہ ایک نئے قانونی رخ کی جانب بڑھتا نظر آ رہا ہے۔
اس کے خلاف مسلم فریق نےجمعہ کو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ سپریم کورٹ نے معاملے کو سماعت کیلئے قبول کرلیا ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس پی وی سنجے کمار نے ہندو فریق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جہاں تک یہ نکتہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے ماتحت محفوظ عمارت کو مسجد کے طور پر استعمال کیا جاسکتاہے یا نہیں، تو یہ معاملہ ہمارے سامنے زیر التوا ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ اس تعلق سے کوئی عبوری حکم جاری نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘ا س کے ساتھ ہی کورٹ نے کہا کہ ہندو فریق کو پٹیشن میں ترمیم کی اجازت دینے کا الہ آباد ہائی کورٹ کافیصلہ بادی النظر میں مناسب ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے اس معاملے کی اگلی شنوائی ۸؍ اپریل کو کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ ہندو فریق نے الہ آباد ہائی کورٹ میں اپنے دعویٰ میں جو اضافہ کیا ہےاس کے مطابق شاہی عیدگاہ مسجد کو ۱۹۲۰ء میں یونائٹیڈ پرووِنس (موجودہ اتر پردیش) کے لیفٹیننٹ گورنر نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ محکمہ آ ثار قدیمہ کے تحت محفوظ عمارت قرار دیا تھا۔ یہ نوٹیفکیشن آثار قدیمہ کے تحفظ سے متعلق قانون کے سیکشن ۳؍ کے تحت جاری کیاگیاتھا اس لئے ۱۹۹۱ء میں پاس ہونےوالاپلیس آف ورشپ ایکٹ کا اس پر اطلاق نہیں ہوگااور اس جگہ کو بطور مسجد استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
مسلم فریق نے الہ آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت پٹیشن میں ہندو فریق کے ذریعہ اس تبدیلی کی اس بنیا د پر مخالفت کی ہے کہ اس سے مسلمانوں کے ذریعہ دفاعی کے بنیادی مرکز ( پلیس آف ورشپ ایکٹ) کی ہی نفی ہوجاتی ہے۔ مسلم فریق نے واضح طو رپر اپنی اپیل میں کہا ہے کہ ’’مجوزہ ترمیم سے ظاہر ہے کہ مدعیان اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ وہ مدعا علیہ کے ذریعہ اختیار کئے گئے دفاع کے بنیادی نکتہ کو ہی بے معنی کردے اور ایک نیا ہی کیس تیار کردے۔ مدعیان (ہندو فریق) اپنے اپنےدعویٰ میں ترمیم اس لئے کر رہے ہیں تاکہ وہ مدعا علیہ کے اس دفاع سے بچ کر نکل سکیں کہ ان کا دعویٰ پلیس آف ورشپ ایکٹ کے تحت قابل سماعت ہی نہیں ہے۔ ‘‘