ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اداریہ / خوف کی گلیوں میں، امید کی ایک کرن ، کیا وزیر اعلیٰ کی معافی منی پور کی تقدیر بدلے گی؟۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

خوف کی گلیوں میں، امید کی ایک کرن ، کیا وزیر اعلیٰ کی معافی منی پور کی تقدیر بدلے گی؟۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

Thu, 02 Jan 2025 13:01:33  Office Staff   S.O. News Service

"خوف کی گلیوں میں، امید کا دِیا جل رہا ہے
غم کے سمندر میں، ایک خواب پل رہا ہے"

شمال مشرقی ہندوستان کی ریاست منی پور آج ایک ایسی آزمائش سے گزر رہی ہے جس نے نہ صرف اس کے عوام بلکہ پورے ملک کو ایک تلخ حقیقت سے آشنا کیا ہے۔ قدرتی حسن اور ثقافتی ہم آہنگی سے معمور یہ ریاست، خونریزی، نفرت، اور نسلی تعصب کی نذر ہو چکی ہے۔ یہ وہی منی پور ہے جو کبھی اپنے تہواروں، رقص، اور روایات کے لیے مشہور تھی، لیکن آج یہاں کی فضاؤں میں بارود کی بو، گلیوں میں بے گناہوں کا خون اور دلوں میں خوف کا راج ہے۔ یہ ریاست اب نسلی تنازعات، سیاسی بے حسی، اور سماجی تقسیم کے عفریت میں الجھ چکی ہے۔ حالیہ مہینوں میں منی پور میں ہونے والے فسادات اور ان کے نتائج نے نہ صرف ریاست بلکہ پورے ہندوستان کے لیے سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی حالیہ معافی ایک جذباتی قدم کے طور پر سامنے آئی ہے، مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا یہ معافی ان زخموں کو بھر سکے گی جو گزشتہ چند مہینوں کے فسادات نے یہاں کے لوگوں کو دیے؟ کیا یہ معافی ان بے بس لوگوں کی زندگی میں روشنی لا سکے گی جو اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں؟ یا یہ محض ایک سیاسی حربہ ہے جس کا مقصد حکومت کی ناکامیوں کو چھپانا ہے؟

وزیر اعلیٰ کی معافی کے بعد منی پور کے حالات میں عارضی سکون دیکھنے کو ملا تھا، لیکن حالیہ عسکریت پسندوں کے حملے نے یہ ثابت کر دیا کہ حکومت کی طرف سے کی جانے والی معافی اور دعوے محض لفظوں کا کھیل ہیں۔ جب تک حقیقی بحالی کے اقدامات نہیں کیے جاتے، حکومت کی معافی کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ امپھال ویسٹ میں حالیہ حملے نے یہ ثابت کر دیا کہ ریاست میں جاری تشدد اور بدامنی کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ حملے حکومت کی ناکامی اور انتظامیہ کی غفلت کا کھلا ثبوت ہیں۔ حکومت کو فوری طور پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی اعتماد بحال ہو سکے۔

منی پور کا موجودہ بحران میتی برادری کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دینے کے تنازع سے شروع ہوا۔ میتی برادری، جو ریاست کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہے، نے اس درجہ کے حصول کے لیے آواز اٹھائی تاکہ زمین اور دیگر وسائل پر مراعات حاصل کر سکیں۔ دوسری طرف، کُوکی اور ناگا قبائل نے اس مطالبے کو اپنے وجود اور وسائل کے لیے خطرہ سمجھا۔ یہ اختلافات 3 مئی 2023 کو قبائلی یکجہتی مارچ کے دوران کھل کر سامنے آئے اور بعد میں یہ تنازعہ نسلی تشدد کی شکل اختیار کر گیا۔

منی پور کے فسادات میں تقریباً 250 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے، 60,000 سے زائد بے گھر ہوئے، اور ریاست کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ خواتین پر جنسی زیادتی کے شرمناک واقعات اور بے شمار گھروں کا نذرِ آتش ہونا اس بحران کی ہولناکی کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ سوشل میڈیا پر متاثرہ خواتین کی ویڈیوز نے عوامی غصے کو مزید بھڑکایا اور حکومت کی نااہلی کو بے نقاب کیا۔ جنہیں انصاف ملنا چاہیے تھا، وہ آج بھی بے یار و مددگار ہیں، اور جنہیں تحفظ فراہم کرنا تھا، وہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

حقیقی توبہ یا محض سیاسی حربہ؟وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے حالیہ معافی میں فسادات کو "ریاست کی تاریخ کا تاریک باب" قرار دیا اور متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کا وعدہ کیا۔ لیکن کیا یہ معافی کافی ہے؟ معافی کے ساتھ کوئی عملی اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے، نہ ہی بے گھر افراد کی مستقل بحالی کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ اپوزیشن نے بھی اس معافی کو سیاسی حکمت عملی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی جانب سے حالیہ معافی کا اعلان ان کی ندامت اور عوامی اعتماد بحال کرنے کی کوشش کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا یہ معافی کافی ہے؟ کیا یہ ان بچوں کی معصومیت واپس لا سکتی ہے جو فساد کی نذر ہو گئے؟ کیا یہ ان گھروں کی چھتیں بحال کر سکتی ہے جو جل کر راکھ ہو چکی ہیں؟ یا یہ صرف ایک رسمی بیان ہے جس کا مقصد عوامی غصے کو ٹھنڈا کرنا ہے؟

وزیر اعلیٰ کی جانب سے معافی کو کئی زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف، یہ ان کے احساسِ شرمندگی کی عکاسی کرتی ہے، تو دوسری طرف، یہ حکومت کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔

متاثرین کے زخم اور ان کی شکایات بدستور باقی ہیں، اور حکومت کی طرف سے کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ معافی کے بعد حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں بحالی کے اقدامات کرتی، لیکن انتظامیہ کی جانب سے سست روی اور عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے کی روش نے عوامی اعتماد کو مزید مجروح کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت معافی کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات نہیں کرتی تو یہ معافی نہ صرف بے اثر ثابت ہوگی بلکہ عوامی بے چینی کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ اگر فسادات کے ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا اور متاثرین کو انصاف فراہم نہ کیا گیا، تو ریاست میں ایک نیا بحران پیدا ہونے کا خدشہ موجود ہے، جو نہ صرف منی پور بلکہ پورے ملک کی سماجی ہم آہنگی پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

مرکزی اور ریاستی حکومت کی غیر مؤثر کارکردگی نے اس بحران کو مزید گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ فسادات کے دوران انتظامیہ کی بے عملی اور مرکزی حکومت کی تاخیر نے عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی طویل خاموشی نے نہ صرف متاثرین کو مایوس کیا بلکہ حکومت کی سنجیدگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔

منی پور میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں، جن میں فسادات کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی، بے گھر افراد کی بحالی اور معاوضہ، نسلی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے عوامی شعور کی مہمات اور متاثرین کو انصاف کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔

"چراغوں کا دھواں باقی ہے، دیواروں پہ سائے ہیں،
یہ منظر کون دیکھے گا، یہ منظر کون بھولے گا۔"

معافی ایک جذباتی قدم ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو فوری طور پر متاثرہ خاندانوں کو مالی امداد فراہم کرنی چاہیے، بے گھر افراد کو محفوظ رہائش گاہیں دینی چاہیے، اور انصاف کی بحالی کے لیے عدلیہ کی نگرانی میں تحقیقات کا آغاز کرنا چاہیے۔

منی پور کے بحران کا حل صرف معافی میں نہیں بلکہ ایک جامع حکمت عملی میں مضمر ہے۔ میتی اور قبائلی برادریوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے اعتماد کی فضا قائم کرنی ہوگی۔ ریاست میں امن و امان کی بحالی کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا جانا چاہیے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔

منی پور کے فسادات ہندوستان کے لیے ایک سبق ہیں کہ نسلی اور سماجی مسائل کو نظر انداز کرنے کے نتائج کتنے سنگین ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی معافی اس بحران کو حل کرنے کے لیے پہلا قدم ہو سکتی ہے، لیکن اس کے لیے مضبوط ارادے اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ نسلی تقسیم نہ صرف منی پور بلکہ پورے ملک کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ وقت یہ طے کرے گا کہ آیا منی پور اپنی گمشدہ شناخت واپس حاصل کر سکے گا یا یہ المیہ ہمیشہ کے لیے اس کی تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔

(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں) 


Share: