سینئر صحافی جیوتی پُنوانی جن کا تعلق ممبئی سے ہے، ان کی رپورٹس اور تجزیے قومی اخبارات اور نیوز ویب سائٹس بشمول ٹائمز آف انڈیا، انڈین ایکسپریس، دی ہندو، دکن ہیرلڈ،وغیرہ میں شائع ہوتے رہتے ہیں،جس میں وہ فرقہ واریت، انسانی حقوق اور میڈیا سے متعلق مسائل پر آواز اُٹھاتی رہی ہیں۔ ان کا تازہ مضمون انگریزی روزنامہ 'دکن ہیرلڈ' میں سنبھل مسجد کے جاری مسئلے پر شائع ہوا ہے، جس کی سُرخی ہے: "انتظامیہ سنبھل کے مسلمانوں کو سبق سکھانے پر تل گئی ہے۔ کیا یوگی آدتیہ ناتھ کمیونل فسادات کا ذکر کرتے وقت صرف ایک کمیونٹی کی ہلاکتوں کی بات کر سکتے ہیں؟" ہم ان کے مضمون کا یہاں اردو میں ترجمہ پیش کررہے ہیں تاکہ ان کے خیالات سے اُردو قارئین بھی آگاہ ہوسکیں۔ ان کے خیالات سے ادارہ ساحل آن لائن کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے، یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں۔
کیا ایودھیا لوک سبھا سیٹ ہارنے کے بعد آنے والےضمنی انتخابات میں بی جے پی کو اپنی ساکھ بحال رکھنے کے لیےخاص طور پر مِلکی پور کی اسمبلی سیٹ جیتنا ضروری ہوگیاہے؟ کیا سپریم کورٹ کی طرف سے متنازعہ مساجد کے سروے پر روک لگانے پر یوپی حکومت کی مایوسی کو ظاہر کرتی ہے، جن میں سے زیادہ تر مساجد کے سروے اتر پردیش میں ہورہے تھے؟
کیا وجہ ہے کہ انتظامیہ 24 نومبر سے مسلسل سنبھل کے مسلمانوں کو ہراساں کر رہی ہے، جب تشدد اس وقت بھڑکا جب افواہیں پھیل گئیں کہ شہر کی سب سے بڑی مسجد کو کھودا جا رہا ہے؟ پولیس کی فائرنگ میں پانچ نوجوان مسلمان جاں بحق ہوگئے جبکہ 51 کو گرفتار کیا گیا۔ سماج وادی پارٹی کے سنبھل کے ایم پی ضیاء الرحمن برق پر نہ صرف مقدمے درج کیے گئے، بلکہ ان کے گھر کی بجلی کاٹ دی گئی اور گھر کے کچھ حصوں کو بھی منہدم کر دیا گیا۔
اُتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا نوجوان ایم پی کے خاندان کے ساتھ پرانا تعلق ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران آدتیہ ناتھ نے ان کے دادا شفیق الرحمن برق کو 'بابر کی اولاد' کہا تھا۔ 88 سالہ شفیق الرحمن برق تب تک چار مرتبہ ایم ایل اے اور ایک بار ایم پی رہ چکے تھے۔ اگرچہ کمزور الیکشن کمیشن نے آدتیہ ناتھ کو اس بدسلوکی پر نوٹس بھیجا، لیکن شفیق الرحمن برق نے سنبھل سیٹ دوسری مرتبہ 55.6% ووٹ کے ساتھ جیت لی، اور ان کے مخالف بی جے پی اُمیدوار کو 1,74,826 ووٹوں سےزبردست شکست ہوئی۔
گزشتہ سال کے لوک سبھا انتخابات میں، پولیس نے مبینہ طور پر سنبھل کے مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے لاٹھی چارج بھی کیا تھا۔ اس کے باوجود، سماج وادی پارٹی کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی۔
1977 میں سنبھل کے لوک سبھا حلقہ بننے کے بعد سے، بی جے پی نے یہ مسلم اکثریتی والی سیٹ 2014 میں نریندر مودی کی لہر کے دوران صرف ایک بار جیتنے میں کامیاب رہی ہے ۔ کیا یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ آدتیہ ناتھ سنبھل کے مسلمانوں کو سبق سکھانے پر تلے ہوئے ہیں؟ اس کی تازہ مثال ان کی ہدایت ہے کہ وہاں تقریباً نصف صدی پہلے ہونے والے فسادات کی فائلیں کھولی جائیں۔
آدتیہ ناتھ نے اسمبلی میں 1978 میں سنبھل میں ہونے والے فسادات کے دوران '184 ہندوؤں' کے مبینہ قتل اور جلائے جانے کا تفصیلی ذکر کیاہے۔ لیکن سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اُترپردیش میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں سنبھل کسی بھی فہرست میں شامل ہی نہیں ہے جہاں 100 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہوں۔ پھر وزیر اعلیٰ کے 'اعداد و شمار' کا ماخذ کیا ہے؟
کیا آدتیہ ناتھ کمیونل فسادات کا ذکر کرتے وقت صرف ایک کمیونٹی کی ہلاکتوں کی بات کر سکتے ہیں؟ کیا وہ شخص، جو ایک آئینی عہدہ رکھتا ہو اور جس پر شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک کرنے کی ذمہ داری ہو، اسمبلی میں اپوزیشن سے یہ کہہ سکتا ہے کہ "209 ہندو مرے اور آپ لوگ ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں؟"
آدتیہ ناتھ کے وزراء 1978 کے فساد کی فائلیں دوبارہ کھولنے کے لیے وجوہات دے رہے ہیں کہ 'انصاف ہونا چاہیے' اور 'متاثرین یہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ کیا ہوا تھا' —
ممبئی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے معاملات پر نظر رکھنے والی اِس صحافی کے تجربے کے مطابق انصاف کا کوئی امکان نہ ہونے کی صورت میں تکلیف دہ یادوں کو زندہ کرنے سے متاثرین نفرت کرتے ہیں۔ کیا تقریباً 50 سال بعد انصاف فراہم کیا جاسکتا ہے؟ فسادات کے فوراً بعد 168 مقدمات درج کیے گئے تھے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اُس وقت، یوپی اور مرکز دونوں طرف جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت تھی، جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پیش رو جماعت جن سنگھا کے وزراء بھی شامل تھے۔ ’’انصاف‘‘ کی اس جستجو میں، یقیناً اُن معززین سے پہلے سوال کیاجانا چاہیے، پھر وردی میں ملبوس افراد سے بھی پوچھنا چاہئے کہ وہ فساد کو روکنے اور اس پر قابو پانے کے مجاز تھے۔کیا یوپی کے مرادآباد، علی گڑھ، میرٹھ، ہاشم پورہ، اور ملیانہ سمیت کئی دہائیوں قبل ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین کو اسی طرح انصاف دلایا جائے گا؟
2023 میں، پولیس نے کنور یاترا کے دوران سنبھل کے مسلم ہوٹلوں کو بند کر دیا، حالانکہ وہ صرف سبزی خور کھانا پیش کرنے کے لیے تیار تھے۔ گزشتہ ماہ کے دوران انتظامیہ منظم طریقے سے زیر زمین مندروں اور کنوؤں کی تلاش میں مصروف ہے۔ ایک بار دریافت ہونے کے بعد پوجا پاٹ فوری طور پر شروع ہو جاتی ہےاور ساتھ ہی انتباہ دیا جاتا ہے کہ ان 'قدیم مندروں' پر کیے گئے 'قبضے' منہدم کر دیے جائیں گے۔ چونکہ سنبھل کی 78% آبادی مسلمان ہے، اس لیے یہ حیرت کی بات نہیں کہ زیادہ تر دریافتیں مسلم گھروں کے نیچے ملی ہیں۔ ان مسلمانوں نے اب اپنے گھروں کو خود ہی منہدم کرنا شروع کر دیا ہے۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی سپریم کورٹ نے سنبھل انتظامیہ کو شاہی جامع مسجد کے زیر استعمال ایک کنویں پر ہندوؤں کو پوجا کی اجازت دینے سے روک دیا تھا۔ اس کے باوجود، وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے ایک متنازعہ بیان دیا کہ عدالتوں کو ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، اور ایسے تمام مقامات پر مسلمانوں کو اپنے دعوے سے دستبردار ہونا چاہیے۔کیونکہ ہندوؤں کو عبادت کے لیے مندر کی ضرورت ہے، جبکہ مسلمان کہیں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ کیا وزیراعلیٰ یہ بھول گئے کہ ان کی پولیس نے مسلمانوں کے خلاف عوامی مقامات پر اور یہاں تک کہ ان کے گھروں میں بھی نماز پڑھنے پر مقدمات درج کیے ہیں؟
اگلے اسمبلی انتخابات کے لئے ابھی دو سال باقی ہیں۔ سنبھل کے مسلمانوں کے لیے، یہ دو سال ممکنہ طور پر عدالتوں کے چکر لگانے میں گزریں گے، جبکہ ان کا وزیر اعلیٰ اپنی اکثریتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف رہے گا۔