"عقل بے تاب ہے پرواز کو، سوچ زنجیر نہ بن جائے کہیں"
یہ مصرعہ آج کی جدید دنیا کی اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے جو بیک وقت مسرت اور خوف کی علامت بن چکی ہے۔ انسان نے ہمیشہ اپنی عقل و دانش کے ذریعے نت نئی ایجادات کیں، لیکن کبھی کبھار یہی ایجادات انسانی وجود کے لیے ایک سوالیہ نشان بھی بن جاتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence یا AI) کی ترقی، بلاشبہ انسان کے ذہنی کمال کی ایک عظیم مثال ہے، لیکن یہ کمال کب زوال میں بدل جائے، اس کا ادراک ضروری ہے۔مصنوعی ذہانت ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو انسانی سوچ، عمل اور جذبات کی تقلید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ مشینوں کو خودمختار بنا کر ان سے ایسے کام لینے کے قابل بناتی ہے جو پہلے صرف انسان انجام دے سکتے تھے۔ آج ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں مصنوعی ذہانت نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ طب، تعلیم، خلا، معیشت، اور دیگر شعبوں میں AI نے انقلاب برپا کر دیا ہے۔ لیکن، جیسا کہ ہر بڑی ایجاد کے ساتھ ہوتا ہے، مصنوعی ذہانت کے ساتھ بھی خطرات کا سایہ موجود ہے۔یہ دوراہا ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا یہ علم کی طاقت ہے جو ہماری زندگیوں کو بہتر بنائے گی، یا پھر یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو خود انسانیت کے لیے خطرہ بن جائے گا۔
آج کے دور میں مصنوعی ذہانت کے فوائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ میڈیکل سائنس میں AI کی بدولت کئی ایسی بیماریاں، جو کبھی ناقابل علاج سمجھی جاتی تھیں، اب ان کا علاج ممکن ہو چکا ہے۔روبوٹک سرجری اور بیماریوں کی ابتدائی تشخیص نے بےشمار زندگیوں کو بچایا ہے۔ تعلیمی نظام میں AI نے طلبہ کے لیے انفرادی ضروریات کے مطابق تعلیم کا نظام متعارف کرایا، جہاں وہ اپنے انداز اور رفتار کے مطابق سیکھ سکتے ہیں۔تجارت میں، AI نے نہ صرف مارکیٹنگ اور سیلز کے نئے طریقے فراہم کیے بلکہ کاروباری اداروں کو ڈیٹا کے ذریعے ایسے فیصلے کرنے کے قابل بنایا جو ان کے لیے منافع بخش ثابت ہوئے۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں، ڈرائیور لیس کارز اور خودکار نظام نے حادثات کی شرح کم کر دی اور سفر کو زیادہ محفوظ بنا دیا۔
خطرات: ایک خوفناک حقیقت
لیکن جہاں ترقی کے یہ فوائد ہیں، وہاں اس کے اثرات کے بارے میں سنجیدہ سوالات بھی ہیں۔ترقی کے ان پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ایک تاریک حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے۔ مصنوعی ذہانت کی بڑھتی ہوئی طاقت نے کئی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں جیوفرے ہنٹن، جنہیں"گاڈ فادر آف AI" کہا جاتا ہے، نے انتباہ کیا کہ اگر مصنوعی ذہانت کو قابو میں نہ رکھا گیا، تو یہ آئندہ چند دہائیوں میں انسانیت کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ماہرین کی رائے میں، مصنوعی ذہانت انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی بلندی ہے، لیکن یہ ایک ایسی بلندی ہے جو خطرناک حد تک کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔AI کی خود مختاری کے بڑھنے کا مطلب ہے کہ یہ مستقبل میں ایسے فیصلے لے سکتی ہے جو انسان کی بقا کے لیے خطرہ بن جائیں۔
اس کا سب سے بڑا خطرہ خودکار ہتھیاروں کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ AI کی بنیاد پر بننے والے ہتھیار، جو خود فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، دنیا کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل سکتے ہیں جہاں انسان کا کردار محدود ہو جائے۔اس کے ساتھ ہی، AI کی وجہ سے لاکھوں ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں، کیونکہ مشینیں وہ کام کرنے لگی ہیں جو پہلے انسان کیا کرتے تھے۔ یہ معاشی عدم استحکام اور بے روزگاری کو بڑھا سکتا ہے۔
معاشرتی طور پر بھی، AI نے کئی مسائل پیدا کیے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا زیادہ فائدہ بڑی کمپنیوں اور امیر ممالک کو ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے دنیا میں وسائل کی غیر مساوی تقسیم کا مسئلہ مزید بڑھ رہا ہے۔ اخلاقی اعتبار سے بھی AI پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، کیونکہ یہ ایسے فیصلے کر سکتی ہے جو انسانی جذبات اور اخلاقیات کے دائرے سے باہر ہوں۔یہ وقت ہے کہ دنیا کے ماہرین اور حکومتیں مل کر مصنوعی ذہانت کے استعمال کے لیے سخت قوانین اور ضابطے متعارف کرائیں۔مصنوعی ذہانت کے ترقیاتی عمل کو شفاف اور اخلاقی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے عالمی سطح پر معیارات طے کرنے اور قوانین تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
عوام میں AI کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے، تاکہ وہ اس ٹیکنالوجی کے ممکنہ خطرات کو سمجھ سکیں۔اس کے ترقیاتی عمل میں ماہرین کو شامل کیا جائے تاکہ یہ ٹیکنالوجی انسانیت کے لیے فائدہ مند رہے۔
"کہاں تک عقل کی پرواز ہے، یہ انسان کو سوچنا ہوگا۔"
یہ وقت ہے کہ ہم مصنوعی ذہانت کی ترقی کو انسانی بھلائی کے لیے استعمال کریں، نہ کہ اسے اپنے ہی خلاف ایک ہتھیار بننے دیں۔ دنیا بھر کی حکومتوں اور اداروں کو چاہیے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کے لیے سخت قوانین اور ضابطے متعارف کرائیں، تاکہ اس کے خطرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔مصنوعی ذہانت ایک معجزہ ہے، لیکن یہ معجزہ اسی وقت کارآمد ہوگا جب ہم اسے قابو میں رکھیں گے۔ اگر یہ بے قابو ہو گئی، تو یہ انسانیت کے خاتمے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
"کہیں یہ علم کا اعجاز ہے، کہیں یہ خوف کا انداز ہے۔"یہی وہ سوال ہے جو آج کے دور میں ہر ایک کے ذہن میں گونج رہا ہے۔ ہمیں اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے یہ سمجھنا ہوگا کہ AI ہماری زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے ہے، نہ کہ انہیں پیچیدہ یا خطرناک بنانے کے لیے۔
"عقل بے تاب ہے پرواز کو، سوچ زنجیر نہ بن جائے کہیں۔"
یہ مصرعہ ہمیں ایک سبق دیتا ہےکہ ٹیکنالوجی ہماری خدمت کے لیے ہے، ہماری غلامی کے لیے نہیں۔اب وقت ہے کہ ہم مصنوعی ذہانت کے ذریعے ایک ایسا مستقبل تشکیل دیں جو ترقی کا معجزہ ہو، نہ کہ انسانیت کے خاتمے کی داستان۔مصنوعی ذہانت ایک معجزہ ہے، لیکن اس معجزے کو مثبت طریقے سے بروئے کار لانے کے لیے ہمیں اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اس کی حدود کا تعین نہ کیا، تو یہ انسانیت کے لیے ایک ایسا چیلنج بن سکتا ہے جو ہمارے وجود کو ہی مٹانے کا سبب بن جائے۔ دنیا کے تمام ماہرین اور حکومتوں کو مل کر اس کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ یہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کام کرے، نہ کہ انہیں ختم کرنے کے لیے۔
(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)