ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اداریہ / اب تو ہاتھوں کی لکیریں بھی مٹ جاتی ہیں، کارپوریٹ دنیا میں کامیابی: قربانی یا استحصال؟۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

اب تو ہاتھوں کی لکیریں بھی مٹ جاتی ہیں، کارپوریٹ دنیا میں کامیابی: قربانی یا استحصال؟۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

Mon, 13 Jan 2025 18:14:44  Office Staff   S.O. News Service

"محنت اگر زندگی کو سہل بنائے تو نعمت ہے،
لیکن اگر یہی محنت غلامی بن جائے تو لعنت ہے۔"

معروف ہندوستانی تعمیراتی کمپنی لارسن اینڈ ٹوبرو (L&T) کے چیئرمین ایس این سبرامنیم کے حالیہ بیان نے کارپوریٹ دنیا، مزدوروں کے حقوق، اور انسانی صحت کے مسائل پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہندوستان کو عالمی سطح پر چین جیسی ترقی کرنی ہے تو ملازمین کو ہفتے میں 90 گھنٹے کام کرنے کا معمول اپنانا ہوگا۔ ان کا یہ بیان کئی حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنا اور یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ترقی کی قیمت انسانی صحت، زندگی کے توازن، اور خاندانی رشتوں کی قربانی ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی محنت ضروری ہے، اور اگر ہم دنیا میں چینی ملازمین کی طرح 90 گھنٹے فی ہفتہ کام نہ کریں، تو ہم پیچھے رہ جائیں گے۔

یہ بیان، جو شاید ان کے عزائم کو ظاہر کرتا ہے، تنقید کی زد میں ہے۔ ملازمین، ماہرین، اور عوام نے اسے غیر عملی اور انسانی صحت کے لیے مضر قرار دیا۔

ایس این سبرامنیم نے اپنے بیان میں کہا کہ"آپ گھر پر کیا کرتے ہیں؟ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ کتنا وقت گزارتے ہیں؟ اپنی بیوی کے چہرے کو کتنے وقت تک دیکھیں گے؟ دفتر آئیں اور کام کریں۔ اگر ہم چین کے محنتی کلچر کی طرح کام نہ کریں تو ہم ترقی نہیں کر سکتے۔"

سوشل میڈیا پر صارفین نے سوال اٹھایا کہ کیا کامیابی کے لیے انسانی صحت، ذہنی سکون اور خاندانی زندگی کی قربانی دینا ضروری ہے؟یہ بیان جہاں کچھ لوگوں کے لیے "غیر معمولی محنت کی ضرورت" کا اشارہ تھا، وہیں دیگر افراد کے لیے یہ "کارپوریٹ غلامی" کی حمایت کا اعلان تھا۔ ایل اینڈ ٹی نے اپنے چیئرمین کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کے الفاظ کو غلط سمجھا گیا ہے، اور ان کا مقصد صرف غیر معمولی کامیابی کے لیے غیر معمولی محنت پر زور دینا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی کامیابی کی بنیاد صرف محنت نہیں بلکہ حکمت، صحت، اور توازن ہے۔کارپوریٹ دنیا میں یہ تصور عام ہے کہ زیادہ کام اور کم آرام ہی ترقی کا راستہ ہے۔ تاہم، L&T کے چیئرمین کے 90 گھنٹے فی ہفتہ کام کرنے کے بیان نے ایک انتہائی حساس مسئلے کو چھیڑا ہے۔

90 گھنٹے فی ہفتہ کام کا مطلب روزانہ تقریباً 13 گھنٹے کام ہے، جو انسانی صحت کے لیے غیر معمولی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ان کا مشورہ غیر معمولی اور عملی طور پر نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ انسانی صحت کے ماہرین کے مطابق، طویل اوقات کار سے ذہنی دباؤ، نیند کی کمی، اور قلبی امراض جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ انسانی صحت، ذہنی سکون، اور سماجی زندگی جیسے عوامل کو نظرانداز کر کے صرف معاشی ترقی کو ترجیح دینا ایک غیر انسانی رویہ دکھائی دیتا ہے۔

معروف شاعر اقبال نے مزدوروں کے حقوق اور سماجی ناانصافی کے بارے میں کہا تھا:

"اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو"

ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں ملازمین کے حقوق اور کام کے توازن پر زور دیا جا رہا ہے، یہ بیان پسماندہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔اس بات سے سب واقف ہیں کہ ہندوستان میں مزدور پہلے ہی کم اجرت، غیر محفوظ ماحول، اور کم سہولتوں جیسے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ اب، ان پر مزید دباؤ ڈالنے کی بات کر کے یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انسانی فلاح سے زیادہ اہمیت منافع کو دی جا رہی ہے۔

کام اور زندگی کا توازن: ترقی کی نئی بنیاد

دنیا بھر میں آج یہ تسلیم کیا جا چکا ہے کہ ترقی کے لیے کام اور زندگی کا توازن بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یورپی ممالک جیسے فرانس اور جرمنی نے ملازمین کی خوشحالی کو اپنی معیشت کی بنیاد بنایا ہے۔ وہاں ہفتے میں صرف 35 سے 40 گھنٹے کام کا اصول نافذ ہے، جبکہ ملازمین کی صحت، ذہنی سکون، اور خاندانی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قوانین موجود ہیں۔

اس کے برعکس، چین اور جاپان میں طویل اوقات کار کے نتیجے میں "کراوشی" جیسے مسائل پیدا ہوئے ہیں، جس میں زیادہ کام کرنے سے ملازمین موت کا شکار ہو جا تے تھے ۔ جاپان کی حکومت کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے "ورک لائف بیلنس" کے قوانین نافذ کرنے پڑے۔

معروف شاعر حبیب جالب نے شاید ایسے ہی ناانصافیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا تھا:

"دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سایے میں ہر مسند کے رہے
ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا"

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان، جہاں مزدوروں کو پہلے ہی سماجی اور معاشی دباؤ کا سامنا ہے، کیا طویل اوقات کار جیسی پالیسی اپنانے کا متحمل ہو سکتا ہے؟

مزدوروں کے مسائل اور کارپوریٹ ذمہ داری

ہندوستان میں مزدوروں کو کئی دہائیوں سے ناانصافیوں کا سامنا ہے۔ کم اجرت، غیر محفوظ ماحول، اور کام کے غیر انسانی حالات عام ہیں۔ L&T جیسے بڑے ادارے، جو اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود کے دعوے کرتے ہیں، کیا ایسے بیان دے کر اپنی ذمہ داریوں سے انحراف نہیں کر رہے؟

کارپوریٹ دنیا میں ملازمین کو "سرمایہ" کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن اکثر ان کی صحت اور حقوق کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال چین کے کارخانوں کی ہے، جہاں طویل اوقات کار نے ملازمین کو ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایسے میں ہندوستانی کمپنیاں کیسے امید کر سکتی ہیں کہ ان کے ملازمین غیر انسانی حالات میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے؟

آج دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت (AI) جیسے وسائل کے ذریعے کام کو آسان بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ملازمین پر دباؤ ڈالنے کے بجائے ان کی خوشحالی کو یقینی بنانا زیادہ اہم ہے۔

معروف صنعت کار رتن ٹاٹا نے ایک بار کہا تھا:

"کامیاب کمپنیاں وہ ہوتی ہیں جو اپنے ملازمین کو ان کی زندگی میں سکون، خوشی، اور ترقی کے مواقع فراہم کریں۔" L&T کے چیئرمین کے بیان پر ہونے والی تنقید اس بات کا ثبوت ہے کہ مزدوروں کے حقوق کا شعور اب ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ کمپنیاں اب اس بات کو نظرانداز نہیں کر سکتیں کہ ان کے ملازمین کی صحت اور خوشحالی ان کی ترقی کا ایک اہم ستون ہے۔

یہ تنازعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ترقی صرف منافع میں اضافے کا نام نہیں بلکہ ایک ایسا عمل ہے جس میں انسانی فلاح و بہبود کو بنیادی حیثیت دی جائے۔ آج کا دور اس بات کا متقاضی ہے کہ کمپنیاں انسانی اقدار، کام کے توازن، اور مزدوروں کے حقوق کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔

"یہ دنیا کا دستور ہے کہ انسان مشین نہیں، اور مشین بھی مسلسل کام کر کے ٹوٹ جاتی ہے۔"
معروف شاعر فیض احمد فیض کا یہ شعر اس صورت حال کی عکاسی کرتا ہے:
"وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن بدلتے ہیں بس وزیروں کے"

ایل اینڈ ٹی کے چیئرمین کے بیان نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم کارپوریٹ دنیا میں مزدوروں کے حقوق، انسانی صحت، اور کام کے اوقات پر دوبارہ غور کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم ترقی کے لیے نئے اصول اپنائیں جو نہ صرف معاشی بلکہ سماجی اور انسانی ترقی کو بھی یقینی بنائیں۔

"محنت کا حق ہر مزدور کو ہے، مگر یہ محنت غلامی میں تبدیل نہیں ہونی چاہیے۔ ترقی کا راستہ توازن، حکمت، اور انسانی اقدار پر مبنی ہونا چاہیے۔"

(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)


Share: