کاروار، 18 / فروری (ایس او نیوز) مرکزی حکومت کے 'ساگر مالا' منصوبے کے تحت نئی بندرگاہوں کی تعمیر، پرانی بندرگاہوں کی تجدید و تویسع اور ان بندرگاہوں کو جوڑنے والی شاہراہوں کی تعمیر کا معاملہ اکثر تنازعات اور مخالفت کا سبب بنتا رہا ہے ۔
اتر کنڑا کے کاروار میں اس منصوبے کے تحت بندرگاہ کی توسیع کا دوسرا مرحلہ جب شروع ہو رہا تھا تو ماہی گیروں اور ساحل کو خوبصورت قدرتی تحفے کے روپ میں پسند کرنے والے مقامی افراد نے بڑی سخت مخالفت اور زبردست احتجاج کا مظاہرا کرتے ہوئے سرکاری حکام کو تعمیراتی سرگرمیاں روکنے پر مجبور کیا تھا ۔ مخالفت اور احتجاج کرنے والوں کا موقف تھا کہ اس سے ماہی گیروں کے لئے مچھلیوں کے شکار پر جانے کا راستہ بند ہو جائے گا ۔ ساحل کے کنارے بسنے والے ماہی گیروں کے مکانات اور ٹھکانے اجاڑے جائیں گے اور تجارتی سرگرمیوں کے لئے ساحل پر قبضہ کر لیا جائے گا ۔ سمندری حصے پر رکاوٹی دیوار تعمیر کرنے کے بعد سیاحوں کے لئے اس خوبصورت سیاحتی مرکز سے لطف اندوز ہونے کا موقع باقی نہیں رہے گا ۔
ان اسباب کے پس منظر میں ساگر مالا منصوبے کے تحت سمندری علاقے اور ساحل کو ترقی کے نام پر سرکاری قبضے میں لینے اور عوام اور ماہی گیروں کے مفادات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی مخالفت کے لئے ایک احتجاجی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ بندرگاہ کی توسیع کا کام شروع ہونے پر ڈٹ کر اس کی مخالفت اور احتجاج کرنا اس کمیٹی کی ذمہ داری ہوگی ۔
اس مخالفت اور احتجاج کی وجہ سے پچھلے چند برسوں بندرگاہ کی تعمیر کے دوسرے مرحلے کا کام جو بند پڑا ہوا تھا اسے پھر شروع کرنے کی بات پچھلے چند دنوں سے گردش میں تھی ۔ مگر اب ریاستی میری ٹائم بورڈ کے سی ای او جئے رام رائپورا نے خود ہی شہر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا اس تعمیراتی منصوبے کا کام جلد ہی شروع ہونے جا رہا ہے ۔
حیرت انگیز بات ہے کہ اس مرتبہ مخالفت کرنے والے ماہی گیر، ساحل پسند کرنے والے مقامی افراد ہوں یا پھر مخالفت اور احتجاج کے دوران صف اول میں رہنے والے سیاسی لیڈران ہوں، سب نے مکمل خاموشی اختیار کی ہے ۔ کہیں سے بھی کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے ۔ اس سے کئی شبہات اور سوالات سر اٹھا رہے ہیں ۔ مقامی عوام کا ایک طبقہ اس کے پیچھے سیاسی اسباب ڈھونڈ رہا ہے تو بعض افراد ماہی گیروں اور احتجاجی کمیٹی کی خاموشی کے پیچھے کچھ راز ہونے کی بات کہہ رہے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ تعمیراتی ٹھیکے دار کمپنی سے فائدہ کرنے والے کچھ لوگ پچھلی بار صرف مخالفت کا ناٹک کر رہے تھے ۔ ان میں سے صرف راجو تانڈیل ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے کسی بھی قسم کے لالچ کو درکنار کرتے ہوئے ساگر مالا منصوبے کی مخالفت میں سب سے آگے کھڑے رہے ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ راجو تانڈیل فوت ہو چکے ہیں ۔ حالانکہ ان کی جگہ کسی اور نے مخالف مورچے کی ابھی کمان نہیں سنبھالی ہے، لیکن کمیٹی تو باقی ہے ۔ اس کے باوجود کمیٹی کے دوسرے لیڈران گزشتہ مرتبہ کی طرح اس بار آگے بڑھ کر مخالفت اور احتجاج کرنے سے گریز اختیار کر رہے ہیں ۔ اس سے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ سابقہ احتجاج میں شریک رہنے والے لیڈروں نے کہیں ٹھیکیدار کمپنی سے ذاتی فائدہ تو حاصل نہیں کیا ہے ؟
خبر یہ بھی ہے کہ ریاستی میری ٹائم بورڈ کے سی ای او نے کاروار میں پریس کانفرنس کرنے سے قبل ساگر مالا منصوبے کی مخالفت کرنے والی کمیٹی سے بات چیت کی تھی اور ان سے مخالفت نہ کرنے کی درخواست کی تھی ۔ اس کے علاوہ اس منصوبے سے پورے علاقے کو مستقبل میں ہونے والے فائدوں کے بارے میں تفصیل پیش کی تھی ۔ جس کے بعد مخالفت کرنے والے لیڈروں نے اس منصوبے سے حاصل ہونے والے "فائدوں" کو ترجیح دینے کا ارادہ کر لیا ہے ۔