
بھٹکل، 25 فروری (ایس او نیوز) بھٹکل کے پڑوسی تعلقہ ہوناور کے کاسرکوڈ میں مجوزہ بندرگاہ کی تعمیر کے خلاف پہلے سے ہی ماہی گیر طبقہ سخت مخالفت کر رہا تھا، لیکن آج، منگل کو، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سخت پولیس سکیورٹی اور امتناعی احکامات، دفعہ 144 کے نفاذ کے ساتھ سروے کا کام شروع کیے جانے کے بعد احتجاج شدت اختیار کر گیا جس پر مقامی عوام متحد ہو کر سمندر کنارے دھرنے پر بیٹھ گئے، جس سے حالات کشیدہ ہو گئے۔
احتجاج میں اس وقت مزید شدت آگئی جب 50 سے زائد ماہی گیروں، جن میں خواتین بھی شامل تھیں، نے سمندر میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دینے کی کوشش کی۔ مظاہرین نے واضح کیا کہ وہ اپنی جان دے سکتے ہیں لیکن بندرگاہ کی تعمیر کسی بھی حال میں نہیں ہونے دیں گے۔ سمندر میں کودنے کی وجہ سے تین خواتین بے ہوش ہو گئیں، جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا، جبکہ ایک کی حالت تشویشناک ہونے پر اُسے منی پال اسپتال شفٹ کیا گیا ہے۔
سروے کی مخالفت اور امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں پولیس نے کئی ماہی گیر لیڈران سمیت سو سے زائد احتجاجیوں کو حراست میں لینے کی خبر ہے۔ کاسرکوڈ۔ٹونکا ساحل پر بھاری پولیس فورس تعینات کر دی گئی ہے جبکہ سمندر کنارے احتجاج درج کرنے والے متعدد لیڈران کو گرفتار کرنے کے بعد دھرنے کو ختم کرایا گیا ہے۔
علاقہ کے عوام اس بات پر سخت برہم ہیں کہ ضلعی انتظامیہ نے ٹونکا اور کاسرکوڈ علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے متعلقہ کمپنی کو سروے کا موقع فراہم کیا اور سخت پولیس سکیورٹی کے درمیان عملے نے دیہات کے مختلف علاقوں میں سروے کیا۔ ماہی گیروں کے ایک لیڈر نے بتایا کہ پولیس کی کارروائی پر سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ماہی گیروں کا ایک وفد جو پہلے ہی بینگلور پہنچا تھا، وزیر اعلی سدرامیا سے ملاقات کی ہے اور پولیس پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے سروے کرایا ہے اور احتجاج کرنے پر ماہی گیر لیڈران سمیت کئی احتجاجیوں کو گرفتار کیا ہے۔

بتاتے چلیں کہ بحر عرب میں ہوناور کے کاسرکوڈ۔ٹونکا ساحل پر مجوزہ یہ منصوبہ حیدرآباد کی ایک نجی کمپنی ہوناور۔ پورٹ۔ پرائیویٹ لمیٹڈ کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔ حکومت نے 2010 میں 92 ایکڑ زمین 30 سالہ لیز پر دی تھی، لیکن چونکہ یہ منصوبہ ماہی گیروں کے علاقے میں بنایا جا رہا ہے، اس لیے مقامی آبادی میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔ ماہی گیر برادری کا کہنا ہے کہ بندرگاہ کی تعمیر سے ان کا روزگار بُری طرح متاثر ہوگا کیونکہ ان کا ذریعہ معاش مکمل طور پر ماہی گیری پر منحصر ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس منصوبے کو فوری طور پر منسوخ کرے۔
ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ بندرگاہ کے لیے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے 4 کلومیٹر سڑک کی تعمیر کا کام جاری ہے، جس کے باعث تقریباً 350 خاندانوں کے بے گھر ہونے کا خدشہ ہے۔ مستقبل میں بندرگاہ کے لیے ریلوے کنکشن کی تجویز بھی ہے، جس سے مزید 250 خاندان متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال ماہی گیر برادری کے لیے شدید پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
آج منگل صبح قریب نو بجے جیسے ہی پولیس کی موجودگی میں کمپنی کے افسران نے سروے کی کارروائی شروع کی، بندرگاہ منصوبے کے خلاف احتجاج میں شدت پیدا کرتے ہوئے مقامی افراد نے آج تعلیمی اداروں کا بھی بائیکاٹ کیا جس کے ساتھ ہی اسکولی بچے بھی احتجاج میں شامل ہوئے اور ریاستی حکومت بالخصوص اُترکنڑا کے انچارج وزیر منکال وئیدیا پر سخت ناراضگی ظاہر کی۔ احتجاجیوں نے بتایا کہ منکال وئیدیا کا تعلق بھی ماہی گیر طبقہ سے ہے، وہ بی جے پی کے دور حکومت میں ماہی گیروں کے ساتھ کھڑے تھے اور اس بندرگاہ کی مخالفت کی تھی، مگر اب اقتدار حاصل ہوتے ہی ان ہی کی وزارت میں یہ کام انجام دیا جا رہا ہے۔ سروے کرنے کے دوران کمپنی کے اہلکاروں نے جب ساحل کی طرف کھمبے لگانے کی کوشش کی تو احتجاجیوں نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں احتجاجی اور پولیس آمنے سامنے آ گئے اور زبانی جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
بتایا گیا ہے کہ آج کیے جانے والے سروے کا مقصد بندرگاہ کے لیے سڑک کی تعمیر کا جائزہ لینا تھا، لیکن عوام کی جانب سے کیے گئے سخت احتجاج کے بعد مظاہرین کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس کو سخت مشقت کرنی پڑی۔ البتہ مرکزی حکومت کے اس پروجیکٹ کو آگے بڑھانے اور بندرگاہ کی تعمیر میں درکار سروے کا کام مکمل کرانے میں کامیابی حاصل کی۔
صبح جب پولیس نے ماہی گیر لیڈران کو گرفتار کرنا شروع کیا تو اس دوران ایک 12 سالہ لڑکی نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر لیڈران کو شام چار بجے تک رہا نہیں کرایا گیا تو وہ شام کو سمندر میں کود کر اپنی جان دے دے گی۔ پتہ چلا ہے کہ پولیس نے اس لڑکی کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور جن نوجوانوں نے پولیس کو ان کے مکان میں جانے سے روکنے کی کوشش کی تھی، اُن نوجوانوں پر لاٹھی چارج کی گئی ہے۔
علاقہ کے مکینوں کا الزام ہے کہ جہاں سڑک بنائی جا رہی ہے، وہ جگہ کچھوؤں کے انڈے دینے کا قدرتی مسکن ہے، جسے محکمہ جنگلات نے بھی تسلیم کیا ہے۔ لیکن نجی کمپنی مبینہ طور پر سڑک کے لیے مٹی اور پتھر ڈال کر اس قدرتی ماحول کو تباہ کر رہی ہے، جو نہ صرف مقامی ماحولیاتی نظام کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ماہی گیری کے مستقبل کے لیے بھی خطرہ ہے۔
احتجاجی مظاہرے کے دوران پولیس نے کتنے لوگوں کو گرفتار کیا ہے، اس تعلق سے محکمہ پولیس کی جانب سے کوئی جانکاری نہیں دی گئی ہے، البتہ رپورٹ پوسٹ کرنے تک خبریں آ رہی تھیں کہ پولیس گھر گھر جا کر احتجاجیوں کو تلاش کر رہی ہے اور اُنہیں گرفتار کرنے میں جُٹی ہوئی ہے۔ پتہ چلا ہے کہ پولیس بالخصوص اُن احتجاجیوں کو گرفتار کرنے میں سرگرم ہوگئی ہے جنہوں نے بندرگاہ کی مخالفت میں میڈیا میں بیانات دیے ہیں۔
یاد رہے کہ ہوناور میں سڑک کی تعمیر کا سروے کرنے سے ایک روز قبل یعنی پیر کو انکولہ میں بھی بندرگاہ کی تعمیر کے لیے سروے کا کام شروع کرنے کے دوران زبردست احتجاج کیا گیا تھا۔ اور انکولہ کے کینی میں بھی ماہی گیر خواتین نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دینے کی کوشش کی تھی۔ انکولہ میں بھی بندرگاہ کی تعمیر کو لے کر ماحول بے حد گرم ہے اور عوام بندرگاہ کی تعمیر کو لے کر سخت مخالفت کر رہے ہیں۔