کاروار 14 / اپریل (ایس او نیوز) ریاست کرناٹکا میں اس وقت ذات پات پر مبنی مردم شماری کے تعلق سے بڑی گرما گرم بحث چل پڑی ہے ۔ اس ضمن میں جو سروے کیا گیا تھا اس کی رپورٹ حکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر جلد ہی افشاء کیے جانے کی توقع ہے ۔
اس مردم شماری کی موافقت اور مخالفت میں گروہ بندی دیکھی جا رہی ہے ۔ اس پر اعتراض کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مردم شماری کروانے کا حق ریاستی حکومت کو نہیں ہے ۔ اس سے نمٹنے کے لئے اس مردم شماری کو ذات پر مبنی سروے رپورٹ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس طرح کی ذات پات پر مبنی رپورٹ کو پیش کرنے سے روکنے کے لئے جس طرح سیاسی سطح پر بھی کوششیں ہو رہی ہیں اسی طرح اس رپورٹ کو افشا کرنے کی مانگ بھی بڑے زوردار طریقے سے کی جا رہی ہے ۔
سال 2011 کی مردم شماری کے حوالے سے اگر ضلع اتر کنڑا کی بات کریں تو یہاں پر 562 افراد نے یہ بتایا ہے کہ ان کا اپنا کوئی بھی مذہب اور کوئی بھی ذات پات نہیں ہے ، ان میں 277 خواتین اور 285 مرد شامل ہیں ۔ اس طرح ان کی آبادی کی شرح 0.04% ہے ۔
دوسری طرف ہندو1,1187,306 (82.61%)، مسلم 1,87,974 (13.08%)، عیسائی 44,530 (3.1%)، سکھ 305 (0.02%) ، بدھسٹ 12,804 (0.89%) ، جین 3,624 (0.25%)، دیگر مذاہب 64 (0%) باشندے ہیں ۔ چونکہ یہ اعداد و شمار 2011 میں کی گئی مردم شماری سے لیے گئے ہیں ، اس لئے حالیہ زمانے میں اس میں اضافہ اور رد و بدل ہو جانا فطری بات ہے ۔
پتہ چلا ہے کہ 17 اپریل کو ریاستی وزیر اعلیٰ سدا رامیا کی صدارت میں کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوگا اور وہاں ذات پات پر مبنی سروے رپورٹ پر بحث ہوگی ۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس کے بعد رپورٹ ظاہر کی جائے گی ۔