حیدرآباد، 10/جنوری (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)مولاناآزادنیشنل اردو یونیورسٹی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ صدیوں کا قرض ہے جو اپنی بچیوں کیلئے ہم کچھ کر کے ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بچیوں کوقدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سماج کو عورتوں کے تئیں حساس بنانے اور خوشگوار تبدیلی لانے کا کام فن اور ثقافت کا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہمارے طالبات کی جھجک بھی دور ہو اور شرم و حیا کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے۔فن اپنے آپ میں ایک زبان ہے، اس کے ذریعے بغیر کچھ کہے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ فن کے اسی اہمیت کہ پیش نظر یونیورسٹی نے آئندہ منصوبے میں فائن آرٹس کا شعبہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان خیالات کا اظہار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے مرکز مطالعاتِ اردو ثقافت کی جانب سے چھ روزہ داستان گوئی ورکشاپ برائے طالبات کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے اپنے صدارتی خطبے میں فنِ داستان گوئی کے سلسلے میں اس ورکشاپ کی ہدایت کار محترمہ پونم گردھانی کی خدمات کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ ورکشاپ کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر شکیل احمد پرووائس چانسلر اردو یونیورسٹی نے اس موقع پر طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے جب میں اپنی یونیورسٹی کے طلبا بالخصوص طالبات کو جوش وخروش کے ساتھ نئے میدانوں میں سرگرم عمل دیکھتا ہوں۔ہم مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ طلبہ کی خود اعتمادی کو کن کن طریقوں سے مزید فروغ دیا جاسکے۔ جو چیزیں ڈگر سے ہٹ کر ہوتی ہیں وہ بے حد اہمیت رکھتی ہیں۔ ہماری یونیورسٹی کا مرکز مطالعاتِ اردو ثقافت یہی کام کر رہا ہے۔ داستان گوئی، غزل گوئی اور دیگر ثقافتی پروگراموں کا انعقاد اس مرکز نے جس خوش اسلوبی کے ساتھ کیا ہے اور محترم شیخ الجامعہ کے خوابوں کو شرمندہ ئ تعبیر کرنے میں جس تندہی سے مصروف ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ورکشاپ کے ہدایت کار اور مشہور داستان گو و اسٹیج اداکارہ پونم گردھانی نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں محض کسی یونیورسٹی میں نہیں ہوں بلکہ ملک کی اہم ترین یونیورسٹی میں ہوں۔ داستانیں تو ہم نے جگہ جگہ سنائیں لیکن اس فن کی جو پذیرائی اس یونیورسٹی میں ہوئی اور اس کے چند ماہ بعد مجھے طالبات کی تربیت کے لئے جو دعوت دی گئی اس سے مجھے یقین ہوگیا کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں نہ صرف اردو زبان، ادب و تعلیم کو فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے بلکہ اردو کے تہذیبی سرمائے اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لئے بھی بنیادی کام ہو رہا ہے۔ مہمانان و حاضرین کا استقبال کرتے ہوئے یونیورسٹی کے مرکزمطالعاتِ اردو ثقافت کے مشیر اعلیٰ انیس اعظمی نے یونیورسٹی کے ارباب اقتدار کا اس ورکشاپ کے انعقاد کی اجازت دینے کے لئے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں طلبہ کی ذہنی نشوونما کے لئے پرفارمنگ آرٹ اور فنون لطیفہ میں ان کی شمولیت بے حد ضروری ہے۔اردو اصناف میں داستان گوئی کا جو مقام ہے وہ مطالعہ کی حد تک تو ہمارے قریب ہے لیکن عملاً کوسوں دورہے۔ اس دوری کو ختم کرنے کا اس ورکشاپ سے زیادہ مناسب موقع نہیں ہوگا۔اس موقع پر یونیورسٹی کے تدریسی وغیرتدریسی عملے کے علاوہ طلبا و طالبات کی بڑی تعداد موجود تھی۔