مولانا اسامہ قاسمی نے کہا،قتل کے اسباب،عصمت دری جیسے واقعات پرتوجہ مرکوزکرے سرکار
کانپور22اکتوبر(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)مرکزی حکومت کی عورتوں کے ساتھ ہمدردی تو صرف دکھاوا ہے اس لئے کہ اگر حکومت کو عورتوں سے ہمدردی ہوتی تو وہ یکساں سیول کوڈ و تین طلاق کے بجائے بیویوں کے قتل کے اسباب اور اس کے سد باب کے لیے کوشش کرتی ۔ آئے دن اخبار وٹی وی چینل پر یہ خبر آتی رہتی ہے کہ فلاں جگہ شوہر نے اپنی بیوی کا قتل کردیایا جلا کر مار دیا۔کم عمر بچیوں کا ریپ اور اجتماعی عصمت دری جیسے گھناؤنے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس میں کمی کے بجائے روز بروز اضافہ ہوتا جا رہاہے ۔ اسی طرح کے بہت سے سلگتے ہوئے مسائل ہیں جن کو حل کرنے میں حکومت ناکام ہے۔ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے بلا وجہ شریعت اور مسلمانوں کے پیچھے نہ پڑے اس سے ملک کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی نے ملک میں یکساں سول کوڈ وتین طلاق کے سلسلے میں ہورہی ریشہ دوانیوں کے ضمن میں کیا۔
مولانا اسامہ قاسمی نے کہا کہ ملک کی موجودہ مرکزی حکومت اور کچھ انتہا پسند خود غرض تنظیمیں جنہیں یکجہتی وخیر سگالی اور امن آشتی سے ازلی دشمنی ہے جو حب الوطنی کا دعوی کرتے ہیں لیکن ملک کی جڑوں میں مٹھا ڈالنے کا کام کرتے رہتے ہیں ۔ ملک میں امن وسکون قائم رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اس وقت مرکزی حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے اپنا رہی ہے ، اس وقت ملک کے عوام کی توجہ یکساں سول کوڈ اور تین طلاق کے مسائل کی طرف موڑ کر ہندوستان میں غیر اطمینان بخش صورتحال پیدا کرنا چاہتی ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت مسلمان کبھی بھی برداشت نہیں کرے گا، اگر حکومت کو عورتوں سے واقعی ہمدردی ہے تو وہ پہلے ان اسباب وعلل کا پتہ لگائیں جس کے سبب شوہر اپنی بیوی کا قتل کردیتا ہے۔ ابھی حال ہی میں کانپور میں10اکتوبر کو پرتبھا گوتم نامی جج کو اس کے شوہر منو ابھشیک پر اس کے قتل کرنے کا الزام ہے ، جس کے جسم میں تقریباً 20مقامات پر شدید گہری چوٹیں ملنے کا بھی انکشاف ہوا۔ اسی طرح حال ہی میں دہلی کے کبڈی کھلاڑی کی بیوی جس نے مرنے سے قبل اپنے ریکارڈنگ کے بیان میں بھی نہایت ہی بے بسی کا اظہار کیا۔ اسی طرح 2014میں کانپور کے دو بڑے تاجر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا جس میں شوہر نے اپنی بیوی جیوتی کا قتل کر دیا تھا، جس کے الزام میں وہ آج بھی جیل میں ہے۔ اسی طرح ہائی پروفائل قتل کے کئی معاملات پیش آئے ۔جس پر لوگوں نے توجہ دی۔ورنہ ایسے بے شمار واقعات ہیں جو ایک دن خبروں میں آنے کے بعد لوگوں کے ذہنوں سے ختم ہوجاتے ہیں ،28؍جون کو کپورتھلا گاؤں ٹوڈر وال میں مایکے رہ رہی بیوی سندیپ کور کو شوہر لکھوندر سنگھ بٹو نے فون کرکے بلایا اور قتل کر دیا۔ 22؍جون بڑوک کے گاؤں لوہاری میں ایک سابق فوجی نے اپنی 45سالہ بیوی کو محض شک کی بنیاد پر قتل کر دیا۔9؍اکتوبر کو جگدیش پور میں ایک شوہر نے اپنی بیوی کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ 22؍ستمبر کو پٹیالہ کے گھنور قصبے کے ایک گاؤں میں سریش رانی کو اس کے شوہر پروین نے قتل کر دیا۔ اسی طرح کے بہت سے واقعات ہیں جس سے لوگ واقف ہی نہیں۔ بیویوں کو قتل کرنے کا یہ رجحان اور معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی و لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی انسانیت اور ملک کے لئے بدنما داغ ہے۔ لیکن حکومتوں کی اس جانب کوئی توجہ نہیں اور ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہے۔ مولانا نے کہا کہ حکومت ملک کو سنبھالے ،ایسے واقعات پر کنٹرول کرے،بلا وجہ شریعت کے پیچھے نہ پڑے۔ حکومت اور شر پسند تنظیموں کے رویے سے ملک دن بدن خانہ جنگی کی طرف جا رہاہے۔ مولانا نے کہا کہ اسلام نے طلاق کے عمل کو انتہائی ناپسندیدہ قرار دیا ہے،لیکن اس کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ کئی صورتوں میں اس کے سوا چارہ نہیں رہتا اور میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ معاشرہ کے تناظر میں اگر دیکھاجائے تو طلاق ایک طرح کی رحمت ہے جو اس سے بڑے گناہ یعنی قتل اور خونریزی کو روکتی ہے۔ مولانا نے کہا کہ کوئی بھی رشتہ برداشت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا ،خاص طور پر میاں بیوی کے رشتے میں اس کی اشد ضرورت ہے۔ دونوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ایک الگ پس منظر رکھتے ہیں۔ اپنی اپنی عادات ،خامیاں وخوبیاں ہیں ۔ شادی کے رشتے کو عمر بھر برقرار رکھنے کیلئے طرفین سے مثبت عمل ہوناچاہئے ۔ اگر ایک برداشت کرتا رہے اور اس کے برعکس دوسرا عدم برداشت کرے تو گاڑی زیادہ دنوں تک نہیں چلتی ، شوہر اور بیوی کے حقوق کے بارے میں اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں اس کو پڑھنا چاہئے اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے اسلامی تعلیمات میں کہیں بھی جھول نہیں ہے ،نام نہاد دانشور جن میں خود بعض مسلم دانشور بھی شامل ہیں وہ اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کئے بغیر تبصرہ شروع کر دیتے ہیں ،یہ نہایت ہی ناانصافی کی بات ہے کہ بغیر پوری طرح سمجھے بوجھے کسی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔ اسلام کے قوانین طلاق ،خلع، وارثت جیسے عائلی مسائل پر تفصیلی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً طلاق کی قسموں طلاق رجعی ، بائن، مغلظہ کے سلسلے میں معلومات حاصل کریں۔مولانانے کہا کہ طلاق کے غلط استعمال کے بارے میں بیداری کی سخت ضرورت ہے ۔