ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / خلیجی خبریں / ججوں کی طرف سے ا سٹینوگرافر کو لکھوائے گئے نوٹس آر ٹی آئی کے تحت نہیں آتے ہیں:ہائی کورٹ

ججوں کی طرف سے ا سٹینوگرافر کو لکھوائے گئے نوٹس آر ٹی آئی کے تحت نہیں آتے ہیں:ہائی کورٹ

Sun, 09 Oct 2016 18:02:06  SO Admin   S.O. News Service

نئی دہلی،9اکتوبر(آایس او نیوز ؍ئی این ایس انڈیا)دہلی ہائی کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ جج کی طرف سے کسی معاملے کی سماعت کے دوران ا سٹینوگرافر کو لکھوائے گئے نوٹس کو انتظامیہ کے تحت ریکارڈ نہیں مانا جائے گا، اس لئے حقوق اطلاعات ایکٹ کے تحت انہیں مانگا نہیں جا سکتا ہے۔جسٹس سنجیو سچدیوا نے کہا ہے کہ شارٹ ہینڈ نوٹ بک کا استعمال اسٹینو کو لکھوائے گئے یادداشت مضمون کے طور پر کیا جاتا ہے جس کی بنیاد پر بعد میں فیصلے کا مسودہ تیار کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ فیصلے کا مسودہ اور حکم انتظامیہ کے پاس موجود ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے۔شارٹ ہینڈ نوٹ بک کی بنیاد پر بعد میں فیصلے کا مسودہ یا حکم تیار کیا جاتا ہے، اس کو یقینی طورپر کسی انتظامیہ کے پاس موجود ریکارڈ نہیں کہا جا سکتا ہے۔عدالت نے آگے یہ واضح کیا کہ شارٹ ہینڈنوٹ بک کو سنبھال کر نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی انہیں فیصلے کی مانند تصور کیا جاتا ہے، یہ عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔یہ فیصلہ اس پٹیشن پر آیا ہے جس میں ایک شخص نے ان شارٹ ہینڈ بک کی کاپی مانگی تھی جس میں ا سٹینوگرافر عدالت سے ہدایات لیتے ہیں۔عدالت نے مرکزی انفارمیشن کمیشن کے سات مارچ کے اس حکم کو قائم رکھا ہے جس میں درخواست گزار تپن چودھری کو 27مئی، 2013میں ہائی کورٹ میں بنی شارٹ ہینڈ نوٹس کی کاپیاں دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ہائی کورٹ کے پبلک انفارمیشن افسر نے درخواست گزار کو اطلاع دینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ شارٹ ہینڈ نوٹ سنبھال کر نہیں رکھے جاتے ہیں۔اپنے تین صفحات کے فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ معاملے کی سماعت کے دوران ججوں کی طرف سے لکھوائے گئے نوٹس کو ان کا آخری فیصلہ نہیں سمجھا جا سکتا،وہ صرف جج کی طرف سے استعمال کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور انہیں انتظامیہ کے تحت آنے والا ریکارڈ کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا۔


Share: