
نئی دہلی 3/اپریل (ایس او نیوز): لوک سبھا میں جمعرات کی علی الصبح 12 گھنٹے طویل بحث کے بعد وقف (ترمیمی) بل 2025 منظور کر لیا گیا۔ یہ بل، جو وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے پیش کیا تھا، مسلم اوقاف سے متعلق قوانین میں ترمیم کر کے وقف بورڈز کی تشکیلِ نو اور حکومتی نگرانی میں اضافے کا مقصد رکھتا ہے۔ ملک بھر میں وقف جائیدادوں کی مجموعی مالیت 1.16 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
مجوزہ قانون کے تحت وقف بورڈز میں غیر مسلم ارکان کو شامل کرنے اور حکومت کو زمینوں کی ملکیت کی تصدیق کا زیادہ اختیار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا مؤقف ہے کہ 1995 کے وقف ایکٹ میں یہ ترامیم بدعنوانی کے خاتمے، بہتر نظم و نسق، اور شفافیت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔
تاہم، اپوزیشن جماعتوں اور مسلم تنظیموں نے اس بل پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے مسلم جائیدادوں، بشمول تاریخی مساجد، مزارات، قبرستانوں اور تجارتی اداروں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی وقف جائیدادیں صدیوں پہلے بغیر کسی باضابطہ قانونی دستاویزات کے وقف کی گئی تھیں، اور اس نئے قانون کے نفاذ سے ان جائیدادوں پر قانونی تنازعات، قبضوں اور حکومتی تحویل میں جانے کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔
بدھ کے روز پارلیمنٹ میں ہونے والے شدید بحث و مباحثے کے دوران، کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن نے اس بل کو غیر آئینی اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی قرار دیا۔ لوک سبھا میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود، بی جے پی نے حلیف جماعتوں کی مدد سے 288 ووٹوں کے ساتھ یہ بل منظور کروا لیا، جبکہ 232 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔
اب یہ بل مزید غور و خوض کے لیے راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔ اگر وہاں بھی اسے منظوری مل جاتی ہے تو صدر دروپدی مرمو کے دستخط کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔
اس قانون سازی میں سب سے متنازعہ پہلو جائیداد کی ملکیت کی تصدیق سے متعلق ہے۔ کئی وقف جائیدادیں صدیوں پہلے بغیر کسی باضابطہ ریکارڈ کے وقف کی گئی تھیں، اور ناقدین کا کہنا ہے کہ نئی ترامیم حکومت کو ان کے انتظام میں زیادہ مداخلت کا موقع فراہم کریں گی۔
ملک بھر کی مسلم تنظیمیں اور اپوزیشن جماعتیں اس بل کو حکومت کی جانب سے مذہبی اداروں پر کنٹرول بڑھانے کی ایک اور کوشش قرار دے رہی ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ملک میں وقف جائیدادیں تقریباً 10 لاکھ ایکڑ (دوگنا ماریشس کے رقبے کے برابر) پر پھیلی ہوئی ہیں، جن کا انتظام 32 ریاستی اور مرکزی وقف بورڈز سنبھالتے ہیں، جو اب تک مکمل طور پر مسلمانوں پر مشتمل رہے ہیں۔
اب غیر مسلم ارکان کی شمولیت کے امکان نے مسلم حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے، کیونکہ اس سے وقف جائیدادوں پر مسلم کنٹرول کمزور ہونے اور مزید تنازعات جنم لینے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔