بنگلورو، 8/فروری (ایس او نیوز /ایجنسی) ریاست میں مائیکرو فائنانس کمپنیوں کی طرف سے قرضہ وصولی کے نام پر لوگوں کو ہراساں کرنے کے واقعات پر روک لگانے کے لیے ریاستی حکومت کی کوششوں کو جمعہ کے روز ایک دھکا لگا۔ اس سلسلے میں سخت قانون لانے کے لیے تیار کیا گیا آرڈننس گورنر تھاور چند گہلوت کے پاس پہنچا، لیکن گورنر نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور اسے واپس کر دیا۔ گورنر نے اپنی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس آرڈننس میں صرف قرضداروں کے مفادات کی بات کی گئی ہے، لیکن وہ افراد جنہوں نے قرضہ فراہم کیا، ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت نے کوئی انتظام نہیں کیا۔ گورنر کا کہنا تھا کہ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ قرض دینے والے اور قرض لینے والے دونوں کے ساتھ برابر کا سلوک کیا جائے۔
گورنر گہلوت نے مزید کہا کہ مائیکرو فائنانس کا بنیادی ضابطہ یہ ہے کہ قرضہ 3 لاکھ روپئے سے زیادہ نہیں دیا جا سکتا، لیکن اس آرڈننس میں حکومت نے 5 لاکھ روپئے تک جرمانے کی بات کی ہے، جو فائنانس اداروں پر زیادتی کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دس سال قید اور پانچ لاکھ روپئے جرمانے کی بات بہت زیادہ ہے۔ گورنر نے یہ بھی سوال کیا کہ حکومت نے کہا ہے کہ قرضہ دیتے وقت قرضدار سے کوئی دستاویز نہ لی جائے، لیکن کیا کسی سرکاری ادارے میں بغیر دستاویز کے قرضہ دیا جاتا ہے؟ اس پر انہوں نے استفسار کیا کہ مائیکرو فائنانسرز کیوں بغیر دستاویز کے قرضہ فراہم کریں گے۔
گورنر نے اس آرڈننس میں قرضہ وصولی کے مرحلے میں ہراسانی کے حوالے سے دس سال قید کی سزا کے جواز پر سوال اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ قرضہ وصول کرنے کے عمل میں ہونے والی ہراسانی کو روکنے کے لیے موجودہ قوانین میں ہی کافی گنجائش موجود ہے، اور اس کے لیے نئے قانون کی ضرورت نہیں۔ گورنر نے مزید کہا کہ اس آرڈننس سے مائیکرو فائنانس کمپنیوں کی کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی اور قرضہ وصولی میں مشکلات پیش آئیں گی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ریاستی اسمبلی کے آئندہ بجٹ اجلاس میں اس مجوزہ قانون کے تمام پہلوؤں پر تفصیل سے بحث کی جائے اور اگر ضرورت ہو تو اسے قانون کی شکل دی جائے۔