نئی دہلی، 11/مئی (ایس او نیوز /پی ٹی آئی ) حکام کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے دوران عوام سے ذات پر مبنی معلومات حاصل کرنے کے لیے 1948 کے مردم شماری قانون میں کسی نئی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ موجودہ قانونی دفعات اس کی اجازت دیتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس قانون میں آخری ترمیم 1994 میں کی گئی تھی، جس کے بعد بھی کئی مردم شماریاں بغیر کسی قانونی رکاوٹ کے مکمل کی جا چکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون مرکزی حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ فارم میں دی گئی تفصیلات کے مطابق عوام سے معلومات طلب کر سکتی ہے۔ 1881 سے 1931 کے درمیان برطانوی دور حکومت میں کی گئی مردم شماری میں تمام ذاتوں کی گنتی کی گئی تھی، لیکن 1951 میں آزاد ہندوستان کی پہلی مردم شماری کے وقت اس وقت کی حکومت نے صرف درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل (شیڈیولڈ کاسٹس اور شیڈیولڈ ٹرائبز) کے علاوہ دیگر ذاتوں کی گنتی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
دس سال بعد 1961 میں مرکزی حکومت نے ریاستوں سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے طور پر سروے کر کے او بی سی (پسماندہ طبقات) کی ریاستی سطح پر فہرستیں تیار کر سکتی ہیں۔ اب چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد اور مختلف جماعتوں و فریقین کی مانگ کے بعد حکومت نے پچھلے مہینے آئندہ ملک گیر مردم شماری میں ذات پر مبنی شمار کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قانون کی دفعہ 8 کا حوالہ دیتے ہوئے حکام نے بتایا کہ مردم شماری کے افسران ایسے تمام سوالات پوچھ سکتے ہیں جنہیں پوچھنے کے لیے انہیں ہدایت دی گئی ہو۔ ہر شخص جس سے سوال کیا جائے، وہ اپنے علم یا یقین کے مطابق اس کا جواب دینے کا قانونی طور پر پابند ہوگا۔
البتہ، کوئی بھی شخص اپنے خاندان کی کسی خاتون کا نام بتانے کا پابند نہیں ہوگا، اسی طرح کوئی بھی خاتون اپنے شوہر، مرحوم شوہر یا کسی اور شخص کا نام بتانے کی پابند نہیں ہوگی، اگر اس کا ذکر سماجی رسم و رواج کے مطابق ممنوع ہو۔
حکام نے مزید بتایا کہ مردم شماری کے دوران جمع کی گئی معلومات کو صرف شماریاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور کسی بھی فرد کی معلومات کو ذاتی طور پر ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ تمام تفصیلات مکمل رازداری کے ساتھ ریکارڈ کی جائیں گی۔ قابل ذکر ہے کہ مردم شماری کا آغاز اپریل 2020 میں ہونا تھا، لیکن کورونا وائرس کی وبا کے باعث یہ عمل ملتوی کر دیا گیا۔