بنگلورو، 6/فروری (ایس او نیوز /ایجنسی) قومی تعلیمی پالیسی میں کی گئی تبدیلیوں کے خلاف چھ ریاستوں کے وزرائے تعلیم نے آواز بلند کی ہے۔ اس سلسلے میں کرناٹک کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم ایم سی سدھاکر کی میزبانی میں آج بنگلورو میں ایک اجلاس منعقد ہوا، جہاں اس پالیسی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ کانگریس نے اس معاملے پر مودی حکومت کو نشانہ بنایا اور یو جی سی (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) کے مسودہ اصولوں کو بنیاد بنا کر مرکز پر تنقید کی۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی کے نفاذ کے نام پر ان اصولوں کو اپڈیٹ کرنے کا جواز غیر منطقی ہے، اور حکومت کو اپنی ان تبدیلیوں کو فوری طور پر واپس لینا چاہیے۔
کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے اس تعلق سے جانکاری دیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کیا ہے۔ اس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’آج بنگلورو میں کرناٹک کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم ایم سی سدھاکر کے ذریعہ ریاستوں کے وزرائے تعلیم کا سمیلن منعقد کیا گیا۔ اس میں کرناٹک، تلنگانہ، کیرالہ، تمل ناڈو، ہماچل پردیش اور جھارکھنڈ کے 6 وزراء نے یو جی سی کے استحصالی مسودہ اصول 2025 کے خلاف 15 نکاتی تجویز اختیار کیا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’فیڈرلزم کے آئینی اصول پاکیزہ ہیں اور ان کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔ اعلیٰ تعلیم کا معیار وزارت تعلیم کے اہم اہداف میں سے ایک ہے۔ ان کی یہ دلیل ہے کہ اصولوں کو این ای پی-2020 کے موافق بنانے کے لیے ترمیم کی گئی ہے۔ لیکن نئی تعلیمی پالیسی 2020 فیڈرلزم اور معیاری تعلیم کے 2 اصولوں کو پار نہیں کر سکتی۔ اس نئے مسودہ اصولوں کو فوراً واپس لیا جانا چاہیے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ بنگلورو میں سمیلن کا انعقاد بدھ (5 فروری) کو کرناٹک حکومت کے محکمہ اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ کیا گیا تھا۔ اس میں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اساتذہ اور تدریسی ملازمین کی تقرری اور پروموشن کے لیے یونیورسٹی گرانٹس مسودہ کے مختلف التزامات اور اعلیٰ تعلیم ریگولیشن 2025 میں پیمانوں کے رکھ رکھاؤ کی ترکیبوں اور این ای پی-2020 کے عمل درآمد کی بنیاد پر اعلیٰ تعلیمی اداروں کی گریڈنگ پر گفتگو کی گئی۔
اس میٹنگ میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومتوں کو ریاست کی سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرری میں اہم کردار دیا جانا چاہیے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یو جی سی کے مسودہ اصولوں میں ریاستی ایکٹ کے تحت موجود پبلک یونیورسٹیز کے وائس چانسلروں کی تقرری میں ریاستی حکومتوں کا کوئی کردار نہیں بتایا گیا ہے اور اس طرح فیڈرل نظام میں ریاست کے جائز حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ وزراء کا کہنا ہے کہ یہ اصول وائس چانسلروں کے سلیکشن کے لیے ’سرچ اینڈ سلیکشن کمیٹیوں‘ کی تشکیل میں ریاستوں کے حقوق کو سنگین طور سے محدود کرتے ہیں۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے قابلیت، مدت کار اور اہلیت پر از سر نو غور کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ اعلیٰ تعلیم کے معیار کو متاثر کرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے پی آئی (اکیڈمک پرفارمنس انڈیکیٹر) تشخیصی نظام کو ہٹانے اور نیا نظام نافذ کرنے سے اعلیٰ سطح پر صوابدید کا اختیار حاصل ہوگا، اس لیے اس پر از سر نو غور کیا جانا چاہیے۔