بنگلورو(ایس او نیوز) وزیر اعلیٰ سدرامیا نے ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ایر کنڈیشنڈ کمروں میں براجمان رہنے کی بجائے دیہاتوں تک پہنچ کرعوام کی مشکلات جاننے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ عوام کے جو بھی مسائل ہیں فوری طور پر انہیں سلجھانے کیلئے متحرک ہونے افسران کو سخت تاکید کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے متنبہ کیا کہ اگر اس میں لاپرواہی برتی گئی اور عوام کی پریشانیاں برقرار رہیں تو اس کیلئے افسران کوراست طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ آج ودھان سودھا کے کانفرنس ہال میں منعقدہ دو روزہ کانفرنس میں تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں ، ڈویوژنل کمشنروں ،ضلع پنچایتوں کے چیف ایگزی کیٹیو افسر ان اور ریاست کے دیگر اعلیٰ افسران سے مخاطب ہوکر انہوں نے کہاکہ عام آدمی کو جو پریشانیاں لاحق ہیں اس کاعلم چہار دیواری کے اندر رہ کر ڈپٹی کمشنروں کو ہو نہیں سکتا۔ ڈپٹی کمشنر اگر اپنے فرائض کی ذمہ داری سے مجبور ہیں تو انہیں چاہئے کہ اپنے ماتحتوں کو دیہاتوں کو روانہ کریں۔
سدرامیا نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ میں جوبھی خامیاں ہیں ان کا آج سے شروع ہوئی اس دوروزہ کانفرنس میں تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔اس کے بعد اگر کوئی خامی برقرار رہی تو اس کیلئے ڈپٹی کمشنروں کو راست طور پر ذمہ دار قرار دیا جائے گا اور انہیں کوتاہیوں کیلئے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اگر افسران نے اپنی ذمہ داری بخوبی نہیں نبھائی تو انہیں عوام کی بدد عا کا شکار ہونا پڑے گا۔انگریزوں کے دور میں ڈپٹی کمشنروں کو عملدار کہاجاتا تھا ، ان کی طرف سے اگر کام میں کوئی کوتاہی ہوتی تو ان عملداروں کو گھوڑوں پر بٹھا دیہاتوں کو بھیجاجاتا جہاں وہ خود دیہاتیوں سے مل کر ان کی مشکلات معلوم کرتے ، لیکن اب دیہاتوں میں ایسی صورتحال نہیں ہے، انہیں کاروں کے ذریعہ عوام م تک پہنچنے کیلئے عمدہ سی عمدہ سڑکیں بنائی گئی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ اتنی سہولیات ہونے کے بائوجود افسران کو عوام تک پہنچنے میں کیا دشوای ہے۔ضلعی انتظامیہ اگر ذمہ داری سے کام کرے گا تو وہاں کے بہت سارے مسائل صوبائی سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی حل ہوجائیں گے۔ ڈپٹی کمشنروں کی طرف سے ایسی کوشش کرنے کے بجائے صرف دفاتر میں وقت گزاری نہیں ہونی چاہئے۔ ریاست میں حکومت اور انتظامیہ کی ضرورت عوام کی مشکلات دور کرنے کیلئے ہے ، اگر اسی بنیادی ذمہ داری سے جی چرائیں تو حکومتوں کی کیا ضرورت ہے؟
پانچ سال میں ایک بار سیاسی پارٹیاں ووٹ مانگنے عوام کے سامنے جاتی ہیں اور اس مرحلے میں انہیں سرکاری افسران کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ میری حکومت ایسی صورتحال پیدا ہونے نہیں دے گی۔ افسران کی کسی کوتاہی کو بخشا نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ دیہاتوں میں سرکاری اسکول ، اسپتال ، ہاسٹل اور دیگر سہولیات مناسب طریقے سے کام کررہی ہیں یا نہیں یہ یقینی بنانا ڈپٹی کمشنروں کی ذمہ داری ہے۔ان میں اگر کوئی خامی ہے تو اسے دور کرنے کی مقامی سطح پر کوشش کی جائے ، اور نہیں ہوپارہا ہے تو اس کی اطلاع ریاستی انتظامیہ کو دی جائے ۔ ڈپٹی کمشنر بھی اس مقام تک پہنچنے کیلئے تعلیمی جد وجہد کے پس منظر سے آئے ہیں۔ ہاسٹلوں میں مقیم طلبا کی مشکلات جاننے میں انہیں پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔حکومت کروڑوں روپے خرچ کرکے سرکاری ہاسٹلوں میں سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے، یہ سہولیات مستحقین تک پہنچ رہی ہیں یا نہیں صرف یہ دیکھنے میں بھی اگر افسران کاہل ہیں تو حکومت کی ساری کی ساری اسکیمیں فضول ہوں گی۔ ہاسٹلوں میں طلبا کو کیا کھانا دیاجارہاہے، اور ان کا معیار کیا ہے، حکومت کی طرف سے ہر ہاسٹل میں کھانے کا مینو تیار کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ڈپٹی کمشنر یہ یقینی بنائیں کہ اس مینو کے مطابق طلبا کو کھانا فراہم کیاجارہاہے یا نہیں۔ حکومت ریاست میں دلتوں ، پسماندہ طبقات ،اقلیتوں اور دیگر مظلوم طبقات کی سماجی ، معاشی اور تعلیمی ترقی کیلئے کئی اسکیموں کا نفاذ کررہی ہے۔ ضلعی انتظامیہ ان اسکیموں کے موثر نفاذ کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہاکہ بعض افسران عوام کو اپنے نزدیک لانے سے بھی گریز کرتے ہیں ، ایسے افسران کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف کارروائیوں کاسلسلہ شروع کیا جائے گا۔ کانفرنس میں وزیراعلیٰ سدرامیا کے علاوہ چیف سکریٹری اروند جادھو ،کابینہ کے بیشتر وزراءاور دیگر سرکردہ عہدیداران موجود تھے۔