نئی دہلی ، 22/ جنوری (ایس او نیوز/ایجنسی)سپریم کورٹ نے عدالتوں میں زیر التوا معاملوں کی بڑھتی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اہم تجویز پیش کی ہے۔ منگل کے روز سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹس میں عارضی ججوں کی تقرری کا وقت آ چکا ہے۔ یہ عارضی جج مستقل جج کی سربراہی والی بنچ کا حصہ بن کر فوجداری معاملات سے متعلق اپیلوں کا فیصلہ کریں گے۔ سپریم کورٹ نے اس مقصد کے لیے آئین کی دفعہ 224 اے کا حوالہ دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی خصوصی بنچ نے کئی ہائی کورٹ میں زیر التوا فوجداری معاملوں کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا اور کہا کہ اکیلے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں 63000 فوجداری اپیلیں زیر التوا ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کچھ ہائی کورٹس میں ایک جج کے نام پر بہت زیادہ معاملے زیر التوا ہیں۔ بنچ نے مشورہ دیا کہ فوجداری معاملوں سے جڑی اپیلوں کے معاملے کی سماعت میں ایک مستقل جج اور ایک عارضی جج کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
بنچ نے کہا کہ ہائی کورٹس میں فوجداری اپیلوں کا نپٹارہ وافر تعداد میں نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس کے لیے اپریل 2021 میں منظور فیصلے کی شرائط میں تبدیلی پر غور کیا جا سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 2021 میں فیصلہ دیا تھا کہ ہائی کورٹس میں ایڈہاک ججوں کی تقرری تبھی کی جا سکتی ہے جب اسامیاں ہائی کورٹ کی کُل منظور شدہ تعداد کا 20 فیصد یا اس سے زیادہ ہوں۔
واضح ہو کہ بہت زیادہ زیر التوا معاملوں کی وجہ سے کئی مجرم سزا بھگتنے کے بعد بھی اپنی اپیلوں پر فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس سے پہلے بھی ان معاملوں کے زیر التوا ہونے پر اپنی فکرمندی ظاہر کی تھی۔ علی گڑھ ہائی کورٹ میں 2000 سے 2021 کے درمیان فوجداری معاملوں سے جڑی اپیلوں پر فیصلہ سنانے کی رفتار کو لے کر سپریم کورٹ نے اعداد و شمار پیش کیے۔ اس کے مطابق ایک نئی اپیل پر فیصلہ سنانے میں اوسطاً 35 سال لگتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ 21 سال سے 1.7 لاکھ اپیلیں دائر کی گئیں جبکہ صرف 31000 معاملوں پر ہی فیصلہ سنایا گیا۔