نئی دہلی ، 19/فروری (ایس او نیوز/ایجنسی )سپریم کورٹ میں آج چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) کی تقرری کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہو رہی ہے۔ یہ درخواستیں ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز سمیت مختلف تنظیموں کی جانب سے دائر کی گئی ہیں، جن میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ 2023 میں سپریم کورٹ کی آئینی بینچ کے احکامات کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ عرضی گزاروں کی نمائندگی سینئر وکیل پرشانت بھوشن کر رہے ہیں، جو عدالت میں اپنے دلائل پیش کریں گے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے ہدایت دی تھی کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری ایک سلیکشن کمیٹی کرے گی، جس میں ملک کے چیف جسٹس بھی شامل ہوں گے۔ تاہم، حکومت نے کمیٹی کی تشکیل میں تبدیلی کرتے ہوئے چیف جسٹس کو نکال دیا اور ایک کابینہ وزیر کو شامل کر دیا۔
فی الحال، تین رکنی سلیکشن کمیٹی میں وزیر اعظم بطور صدر، وزیر داخلہ امت شاہ اور لوک سبھا میں قائد حزبِ اختلاف راہل گاندھی شامل ہیں۔ اس سے قبل، کابینہ وزیر کے بجائے ملک کے چیف جسٹس کمیٹی کے رکن ہوتے تھے، لیکن 2023 میں حکومت نے اس میں تبدیلی کر دی۔
واضح رہے کہ 17 فروری کو الیکشن کمشنر گیانیش کمار کو نیا چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔ وزارتِ قانون نے اس تقرری کی باضابطہ اطلاع جاری کی۔ ان کی ترقی کے بعد ہریانہ کے چیف سیکریٹری ویویک جوشی کو نیا الیکشن کمشنر بنایا گیا، جبکہ انتخابی کمشنر سکھبیر سنگھ سندھو اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
ادھر، 18 فروری کو کانگریس رہنما راہل گاندھی نے گیانیش کمار کی بطور چیف الیکشن کمشنر تقرری پر اعتراض اٹھایا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ کمیٹی کی میٹنگ کے دوران انہوں نے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو ایک اختلافی نوٹ دیا، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کی تقرری کا عمل آزاد اور شفاف ہونا چاہیے تاکہ اس پر کسی قسم کا سرکاری دباؤ نہ ہو۔
راہل گاندھی نے حکومت کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے سپریم کورٹ کے حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے چیف جسٹس کو کمیٹی سے خارج کر دیا، جو کروڑوں ووٹروں کے لیے تشویش کا باعث ہے اور انتخابی عمل کی غیر جانبداری پر سوال کھڑا کرتا ہے۔