بھٹکل 25 جنوری (ایس او نیوز): پڑوسی تعلقہ ہوناور کے سالکوڈ گاؤں میں حاملہ گائے کے قتل کے واقعے نے اس وقت متنازع رُخ اختیار کرلیا جب پولیس نے تعلقہ کے ہی کاسرکوڈ گاؤں میں ایک مشتبہ شخص کی ٹانگ پر مبینہ طور پر فرار ہونے کی کوشش میں گولی مار دی۔ اس واقعے سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے اور خاص طور پر مسلمانوں میں کانگریس حکومت کے خلاف سخت ناراضگی پائی جارہی ہے۔
گذشتہ اتوار کی صبح ہوناور کے سالکوڈ گاؤں میں حاملہ گائے کو کاٹنے اور اس کے گوشت کو مبینہ طور پر بھٹکل کے ایک شادی کی تقریب میں سپلائی کرنے کی خبر منظرعام پر آئی تھی۔ اس واقعے کے بعد کمٹہ-ہوناور کے رکن اسمبلی دینکر شٹی نے کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدارامیا اور وزیر داخلہ جی پرمیشور کے ساتھ ساتھ ضلع کی پولس پر بھی سنگین الزامات عائد کئے تھے اور کہا تھا کہ وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ کو اپنے دماغ کا علاج کرانے کی ضرورت ہے۔ ضلع کی پولس پر الزام لگاتے ہوئے دینکر شٹی نے کہا تھا کہ پولس ہی چوروں کو جانکاری دیتی ہے اوراُنہیں جانوروں کی چوری پر تحفظ فراہم کرتی ہے۔
جس کے بعد اُتر کنڑاکے انچارج وزیر منکل وئیدیا نے نوٹس لیتے ہوئے ضلع ایس پی کو مویشی چوری کرنے والوں اور جانوروں کو ذبح کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا، جس کے بعد پولیس نے مویشی چوری اور اسمگلنگ کے پرانے مقدمات میں مبینہ طور پر ملوث ہوناور کے ہی چار افراد کو گرفتار کرلیا، جبکہ بھٹکل پولس نے بھٹکل تعلقہ کے مخدوم کالونی میں بھی ایک مکان پر چھاپہ مارتے ہوئےمبینہ طور پر گوشت برآمد کرتے ہوئے تین لوگوں کو گرفتار کرلیا۔
مگر یہ معاملہ آؔج سنیچر کواُس وقت ڈرامائی موڑ اختیار کر گیاجب ایک کنڑا میڈیا نے رپورٹ دی کہ پولیس نےایک ملزم کو پنچنامہ کے لیے لے جا نے کے دوران اُس کی ٹانگ پر گولی چلائی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملزم نے مبینہ طور پر فرار ہونے کی کوشش کی تھی اور اس کو روکنے کے لیے اس کی ٹانگ میں گولی ماری گئی، رپورٹ کے مطابق زخمی شخص کو کاروارضلعی اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ البتہ ایک اور کنڑا میڈیا نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے کاسرکوڈ میں فضلُو نامی ایک اور مشتبہ شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کے دوران اس کی ٹانگ پر اُس وقت گولی چلائی، جب وہ فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ زخمی شخص کو علاج کے لیے ہوناور سرکاری اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔
واقعے کی متضاد رپورٹ سامنے آنے کے بعد حقیقت جاننے کے لیے ساحل آن لائن نے ضلع ایس پی اور بھٹکل ڈی وائی ایس پی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن دونوں افسران نے موبائل فون ریسیو نہیں کیا۔
تازہ واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہےاور چوری کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کو لے کر مسلمانوں میں سخت ناراضگی پائی جارہی ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ چوری کا مال کھانا اسلام میں حرام ہے اور مسلمان کبھی بھی چوری کا مال نہیں کھاتے، لیکن مسلمانوں کو مویشی چوری کے الزامات میں گرفتار کرکے پولس غیرمسلم بھائیوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنےاور دونوں فرقوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بعض سوشیل میڈیا صارفین نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کانگریس حکومت بی جے پی اور آر ایس ایس کے ٹرول آرمی کے دباؤ میں آکرمسلم نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی اور آر ایس ایس حامیوں کو خوش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ سوشیل میڈیا پر کانگریس کی حمایت کرنے والے مسلم قائدین کی خاموشی پر بھی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔