ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپیشل رپورٹس / کرناٹک کا بجٹ اور مسلمان،انتخابی حمایت کا انعام یا نظراندازی کی سزا؟۔۔۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک کا بجٹ اور مسلمان،انتخابی حمایت کا انعام یا نظراندازی کی سزا؟۔۔۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

Sat, 01 Mar 2025 10:18:23    S O News

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا 7 مارچ 2025 کو ریاستی بجٹ پیش کرنے والے ہیں۔ یہ ان کا 16واں بجٹ ہوگا، کیونکہ وہ وزیر مالیات کا قلمدان بھی رکھتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح، اس بجٹ سے بھی تمام طبقات، بالخصوص اقلیتوں کو بے حد امیدیں وابستہ ہیں۔ مگر اس مرتبہ بجٹ کی تیاری کے دوران کچھ ایسے عوامل سامنے آئے ہیں، جنہوں نے مسلمانوں میں بے چینی اور مایوسی کی فضا پیدا کر دی ہے۔روایتی طور پر، اقلیتی بہبود سے متعلق فیصلوں میں مسلم رہنماؤں، ماہرین، دانشوروں اور کمیونٹی کے نمائندوں سے مشاورت کی جاتی رہی ہے، لیکن اس بار اس روایت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے صرف اپنی پارٹی کے منتخب ارکانِ اسمبلی اور کونسل کے ساتھ بند کمرے میں اجلاس منعقد کرکے اقلیتوں سے متعلق امور پر گفتگو کی، جبکہ دیگر پسماندہ طبقات، قبائل اور مذہبی برادریوں کے نمائندوں کو ودھان سودھا میں مدعو کرکے ان کے مسائل پر بات چیت کی گئی۔ یہ امتیازی طرزِ عمل مسلمانوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ ان کی آواز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جنہوں نے فرقہ پرست سیاست کو روکنے کے لیے کانگریس کو اقتدار تک پہنچایا تھا، وہ آج خود بے یار و مددگار محسوس کر رہے ہیں۔

گزشتہ سال، وزیر اعلیٰ سدارامیا نے 3,46,409 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا تھا، جس میں اقلیتی بہبود کے لیے صرف تقریباً 3,000 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔ یہ رقم کرناٹک کی اقلیتی آبادی کے تناسب سے محض 0.08 فیصد تھی، جبکہ مسلمان ریاست کی مجموعی آبادی کا 14 فیصد ہیں۔ انتخابات کے دوران، کانگریس نے اقلیتوں کے لیے 10,000 کروڑ روپے کے بجٹ کا وعدہ کیا تھا، لیکن عملی سطح پر اس کا کوئی عکس نظر نہیں آیا۔ اسی طرح، انتخابی منشور میں مسلمانوں کے تعلیمی اور معاشی ترقی کے لیے کیے گئے کئی وعدے محض دعوے ثابت ہوئے۔

مالی سال کے اختتام پر اقلیتی بہبود کے محکمے میں جو فنڈ خرچ نہیں ہو سکا، اسے واپس کیے جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ شکایات ہیں کہ دیگر محکموں کی طرح یہاں بھی فنڈ کے واپس جانے کے خوف سے اسے جلد بازی اور غیر ضروری مدات میں خرچ کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں حقیقی ضرورت مندوں تک اس کا فائدہ پہنچنے کے بجائے اسکیمیں رسمی کارروائی کا شکار ہو رہی ہیں۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اقلیتی بہبود کے ماتحت ادارے فنڈ کے درست استعمال کے بجائے ایسے غیر ضروری پروگرام منعقد کر رہے ہیں جو ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک حالیہ مثال  اقلیتی محکمے سے ماتحت ایک اکیڈمی کی دی جا سکتی ہے، جہاں بغیر کسی شفاف طریقۂ کار کے ایوارڈز تقسیم کیے گئے، جن میں چندحقیقی مستحق  تو تھے مگر چند اعزازات اقربا پروری کے تحت مخصوص افراد کو نوازے گیے ۔ اس تقریب میں نہ وزیر اعلیٰ موجود تھے، نہ ہی متعلقہ وزیر، جبکہ کئی ذمے داران نے اپنے رشتہ داروں اور قریبی افراد کو نوازنے میں کامیابی حاصل کی۔جس سے اس باوقار اعزاز کی اہمیت میں گراوٹ ہونے کا خدشہ لاحق ہے ۔یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ اقلیتی بہبود کے معاملات میں شفافیت کی شدید کمی ہے، اور اگر یہی روش برقرار رہی، تو نہ صرف مسلمان حکومتی پالیسیوں سے مایوس ہوں گے بلکہ اقلیتی اداروں کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔

مسلمان کرناٹک کی سیاست میں ہمیشہ سے ایک فیصلہ کن عنصر رہے ہیں۔ 2023 کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے کانگریس کو بھاری حمایت دے کر بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اقتدار میں آنے کے بعد کانگریس واقعی مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے، یا یہ بھی محض سیاسی وعدے تھے؟

7 مارچ کو پیش ہونے والا بجٹ مسلمانوں کے لیے اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں حکومت اقلیتی بہبود، تعلیمی ترقی، معاشی استحکام، اور 4 فیصد مسلم ریزرویشن جیسے معاملات پر کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔

2023 میں کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کو امید تھی کہ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کیا جائے گا، لیکن اقلیتی بہبود کے بجٹ میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے مختص فنڈز وہی رہے جو بی جے پی حکومت میں تھے، اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو رقم جاری کی گئی، وہ بھی مکمل طور پر خرچ نہیں ہو سکی۔ تعلیمی اسکالرشپس، امداد، اور قرضوں کی اسکیمیں بیوروکریسی کی تاخیری پالیسیوں اور عدم دلچسپی کا شکار رہیں، جس کے باعث کئی مستحق طلبہ اور ادارے امداد سے محروم رہے۔

اسی طرح، 4 فیصد مسلم ریزرویشن کی بحالی کا مسئلہ بھی التوا کا شکار ہے۔ بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے لیے مخصوص 4 فیصد کوٹے کو ختم کر کے اسے لنگایت اور ووکلیگا برادریوں میں تقسیم کر دیا تھا، جس کے خلاف کانگریس نے انتخابات کے دوران شدید احتجاج کیا تھا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد، اس معاملے میں کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ اگر بجٹ میں بھی اس حوالے سے کوئی ٹھوس اعلان نہیں کیا جاتا، تو یہ حکومت کی نیت پر سوالیہ نشان چھوڑ دے گا۔

جب دیگر طبقات پر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ حکومت ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے لیے خصوصی پیکیجز، لنگایت اور ووکلیگا برادری کے لیے نئی اسکیمیں، اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے علیحدہ فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں، لیکن مسلمانوں کے معاملے میں کوئی ٹھوس پالیسی نظر نہیں آ رہی۔

اگر کرناٹک حکومت واقعی مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنا چاہتی ہے، تو ضروری ہے کہ ا‌قلیتی بہبود کے بجٹ میں کم از کم 10,000 کروڑ روپے مختص کیے جائیں، تاکہ تعلیمی و معاشی ترقی کے لیے مؤثر اسکیمیں نافذ کی جا سکیں،۔4 فیصد مسلم ریزرویشن کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور اسے عملی طور پر نافذ کیا جائے۔اقلیتی اداروں، مدارس، اور مسلم تعلیمی مراکز کو براہ راست حکومتی امداد فراہم کی جائے، تاکہ وہ اپنی خدمات جاری رکھ سکیں۔بیوروکریسی کی رکاوٹوں کو دور کر کے اقلیتی اسکالرشپس اور فلاحی اسکیموں کے فنڈز جلد از جلد جاری کیے جائیں۔مسلمانوں کی سیاسی و سماجی شراکت داری کو یقینی بنانے کے لیے کابینہ میں ان کی نمائندگی بڑھائی جائے اور پالیسی سازی میں ان کی رائے کو شامل کیا جائے۔

اگر اس بجٹ میں بھی مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا، تو اس کا اثر سیاسی منظرنامے پر نمایاں ہوگا۔ مسلمان ہمیشہ سیکولر قوتوں کے حامی رہے ہیں، لیکن اگر ان کے مسائل حل نہ کیے گئے، تو وہ متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بجٹ کے فیصلے وقتی نہیں ہوتے، بلکہ ان کے اثرات طویل مدت تک قائم رہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 7 مارچ کا بجٹ مسلمانوں کے لیے امید کی کرن بنے گا، یا مایوسی میں مزید اضافہ کرے گا۔

(مضمون نگار عبدالحلیم منصور کرناٹک کے معروف صحافی اور تجزیہ نگار ہیں)


Share: