ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپیشل رپورٹس / کرناٹک میں ہنی ٹریپ اسکینڈل، سیاست کے ایوانوں میں اخلاقی زوال کی گونج!۔۔۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک میں ہنی ٹریپ اسکینڈل، سیاست کے ایوانوں میں اخلاقی زوال کی گونج!۔۔۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

Sat, 22 Mar 2025 10:46:12    S O News

یہاں ہر شخص نقابوں میں چھپا بیٹھا ہے
حقیقت ڈھونڈنے نکلو تو تماشہ ہوگا

کرناٹک میں ہنی ٹریپ اسکینڈل نے سیاست، بیوروکریسی اور سماجی حلقوں میں زبردست ہلچل مچا دی ہے۔ یہ کوئی عام معاملہ نہیں بلکہ ایک ایسا پیچیدہ جال ہے، جس میں کئی بااثر شخصیات پھنس چکی ہیں۔ سیاست، طاقت، بلیک میلنگ اور انسانی کمزوریوں کا یہ کھیل کوئی نئی کہانی نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو مختلف شکلوں میں بار بار دہرائی جاتی رہی ہے۔ مگر اس بار جو کچھ ہو رہا ہے، وہ زیادہ سنگین اور گہرے اثرات مرتب کرنے والا ہے۔

یہ اسکینڈل کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، اور ہر سوال کے پیچھے ایک نئی کہانی چھپی ہوئی ہے۔ سیاست میں ہنی ٹریپ کا استعمال ہمیشہ سے ایک مہلک ہتھیار رہا ہے، جہاں کسی کو ذاتی کمزوریوں میں پھنسا کر اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ طریقہ سیاست میں نیا نہیں، بلکہ اقتدار کے کھیل میں ہمیشہ کارگر ثابت ہوا ہے۔ سیاست میں دیانت اور شفافیت کا جو معیار ہونا چاہیے، وہ شاید صرف کتابوں میں رہ گیا ہے۔ حقیقی دنیا میں، طاقت حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے جو بھی ممکن ہو، وہ کیا جاتا ہے، چاہے وہ بلیک میلنگ ہو، دھمکیاں ہوں یا کسی کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اسے خاموش کر دینا ہو۔

اطلاعات کے مطابق، اس اسکینڈل میں نہ صرف سیاست دان بلکہ سرکاری افسران، تاجر اور دیگر بااثر شخصیات بھی شامل ہیں،بتایا جاتا ہے کہ  تقریباً 48 سیاست دان، جن میں کچھ مرکزی وزراء بھی شامل ہیں، اس جال کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان افراد کی قابل اعتراض ویڈیوز اور دیگر مواد مبینہ طور پر موجود ہیں، جنہیں بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایک منظم سازش ہے یا واقعی کچھ لوگ اپنی ذاتی کمزوریوں کے باعث مصیبت میں پھنس گئے ہیں؟ اس معاملے میں جدید ٹیکنالوجی، خفیہ ویڈیوز اور بلیک میلنگ کے روایتی حربے استعمال کیے گئے، جس کے نتیجے میں کئی بااثر افراد کو زبردست دباؤ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق، یہ ایک منظم نیٹ ورک کا کام ہے جو مخصوص مقاصد کے تحت اہم شخصیات کو اپنے جال میں پھنسا کر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب ہنی ٹریپ کا استعمال سیاسی جوڑ توڑ کے لیے کیا گیا ہو۔ مدھیہ پردیش میں 2019 میں ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا تھا جس میں کئی اعلیٰ عہدیداروں کو خواتین کے ذریعے جال میں پھنسایا گیا اور بعد میں ان سے بھاری رقوم اور دیگر فوائد حاصل کیے گئے۔ اس سے قبل بھی ہندوستان میں کئی سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور حتیٰ کہ فوجی افسران کو اس قسم کی سازشوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اگر عالمی سیاست کی بات کی جائے تو سرد جنگ کے دوران روس اور امریکہ کے درمیان خفیہ چالوں میں ہنی ٹریپ ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کئی جاسوس تنظیمیں مخالف ملک کے اہم عہدیداروں کو پھنسانے کے لیے اسی طریقے کا سہارا لیتی رہی ہیں۔ لیکن کرناٹک میں موجودہ معاملہ اس لیے زیادہ حساس ہے کہ یہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ریاست پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ ایسے میں کسی بھی بڑے اسکینڈل کے اثرات ریاست کے سیاسی مستقبل پر براہ راست مرتب ہو سکتے ہیں۔

یہ اسکینڈل عوامی اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پہلے ہی سیاست دانوں کے کردار پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، اور اب ایسے واقعات عوامی مایوسی اور بے اعتمادی کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔ حکومت اور تحقیقاتی اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس معاملے کی مکمل چھان بین کریں اور ان عناصر کو بے نقاب کریں جو اس کھیل کے اصل ماسٹر مائنڈ ہیں۔ اگر یہ معاملہ صرف ایک مخصوص سیاسی جماعت یا افراد کو نشانہ بنانے کے لیے اچھالا جا رہا ہے تو یہ ایک اور خطرناک رجحان ہوگا، کیونکہ اس کا مطلب ہوگا کہ اقتدار کے کھیل میں اخلاقیات، سچائی اور قانون سب کچھ ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور محض طاقت حاصل کرنے کے لیے تمام حدیں پار کی جا سکتی ہیں۔

کرناٹک کے وزیر اعلٰی سدارامیا نے اس اسکینڈل پر اسمبلی میں دیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے اور حکومت اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کے لیے تیار ہے۔ ان کے مطابق، اس اسکینڈل میں جو بھی ملوث پایا جائے گا، چاہے وہ کسی بھی عہدے پر ہو، اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہوگا؟ یا پھر یہ معاملہ بھی دیگر کئی اسکینڈلز کی طرح وقت کے ساتھ دب جائے گا اور سیاست کا کھیل اسی طرح اپنی چالاکیوں اور فریب کاریوں کے ساتھ آگے بڑھتا رہے گا؟

سیاست میں ایسے الزامات اکثر لگتے ہیں، مگر جب کوئی اسکینڈل اتنی شدت اختیار کر لے کہ اقتدار کے ستون ہلنے لگیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاملہ محض الزامات کا نہیں بلکہ حقیقت کہیں زیادہ سنگین ہے۔

میڈیا کا کردار بھی اس معاملے میں بہت اہم ہے۔ کچھ میڈیا ہاؤسز نے اسے سنسنی خیز انداز میں پیش کیا ہے، جبکہ کچھ نے اسے دبانے کی کوشش کی ہے۔ کچھ نیوز چینلز اس اسکینڈل کو ایک مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، جبکہ کچھ اس معاملے کو زیادہ اہمیت دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا میڈیا اس معاملے کو غیر جانبداری سے پیش کر رہا ہے یا مخصوص ایجنڈے کے تحت اس کی تشہیر ہو رہی ہے؟ کیا اس اسکینڈل کا مقصد کچھ افراد کو بے نقاب کرنا ہے یا یہ ایک بڑی سیاسی سازش کا حصہ ہے؟

طاقت کے ایوانوں میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو دوسروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہنی ٹریپ کا شکار صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی کمزوری کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر سیاست دان اور عہدیدار اپنی ذاتی زندگی میں محتاط اور دیانت دار ہوں تو ایسے جال میں پھنسنے کا امکان کم ہوتا ہے۔ لیکن انسانی فطرت کمزوریوں کا مجموعہ ہے، اور جب اقتدار ، دولت اور شہرت کا نشہ ہو تو فیصلے جذبات اور خواہشات کے تابع ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب پس پردہ موجود قوتیں اپنی چال چلتی ہیں، اور ایک بار جب کوئی شخص ان کے جال میں آ جائے تو پھر اس کا بچ نکلنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

یہ کہانی صرف سیاست دانوں اور افسران تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا نیٹ ورک کام کر رہا ہے، جو مخصوص مقاصد کے تحت اہم شخصیات کو اپنے جال میں پھنسا کر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق، یہ ایک منظم سازش ہے جس کا مقصد سیاسی منظرنامے کو متاثر کرنا ہے۔

یہ اسکینڈل صرف چند افراد کی بدنامی تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے وہ تمام بیماریاں چھپی ہوئی ہیں جنہوں نے ہندوستانی سیاست کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رکھا ہے۔ اگر اس معاملے کو گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سیاست اب محض نظریات اور پالیسیوں کی جنگ نہیں رہی بلکہ اس میں بلیک میلنگ، جھوٹے الزامات اور خفیہ چالوں کا کھیل زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ہنی ٹریپ اسکینڈل نہ صرف اخلاقی اور قانونی مسائل کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس کے سیاسی زاویے بھی قابل غور ہیں۔ جے ڈی ایس اور بی جے پی کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور الزامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے کی تہہ میں سیاسی سازشیں اور اقتدار کی کشمکش شامل ہو سکتی ہے۔

حکومت کو اس معاملے میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانی ہوں گی تاکہ سچائی سامنے آ سکے۔ اگر واقعی یہ ایک بڑی سازش ہے تو اسے بے نقاب کرنا ضروری ہے، اور اگر یہ اسکینڈل حقیقی ہے تو اس میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔اگر یہ صرف ایک سیاسی چال ہے، تو پھر یہ سیاست کے زوال کی ایک اور مثال بن جائے گا، جہاں الزامات اور جوابی الزامات کے سائے میں اصل مسائل پس پردہ چلے جاتے ہیں۔اور یہ معاملہ بھی دیگر اسکینڈلز کی طرح وقت کے ساتھ بھلا دیا جائے گا، اور سیاست اسی طرح اپنی چالاکیوں اور فریب کاریوں کے ساتھ آگے بڑھتی رہے گی۔

تاج اچھلتے رہے، تخت گرتے رہے
یہ سیاست ہے، یہاں فیصلے بکتے رہے

(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)


Share: