ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپیشل رپورٹس / کرناٹک میں"حلال بجٹ" کا فریب، بی جے پی کی اقلیت مخالف سیاست کی نئی مثال؟۔۔۔۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

کرناٹک میں"حلال بجٹ" کا فریب، بی جے پی کی اقلیت مخالف سیاست کی نئی مثال؟۔۔۔۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

Sat, 08 Mar 2025 10:02:51    S O News

ہے اہلِ دل کے لیے اب یہ نظم بستۂ زر
کہ خواب دیکھو، تسلّیاں لو، فریب کھاؤ

کرناٹک میں وزیرِ اعلیٰ سدارامیا نے جمعہ کو اپنا سولہواں بجٹ پیش کیا، جس کا مجموعی حجم تقریباً چار لاکھ کروڑ روپے ہے۔ تاہم، اس میں اقلیتی فلاح و بہبود کے لیے محض ساڑھے چار ہزار کروڑ روپے مختص کیے گئے، جو کل بجٹ کا تقریباً ایک فیصد ہے۔ جبکہ ریاست کی آبادی میں اقلیتی طبقے (مسلمان، عیسائی، جین، سکھ، بدھ وغیرہ) کی نمائندگی 15 سے 20 فیصد کے درمیان ہے۔ اس تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے، بجٹ میں اقلیتی برادری کے لیے مختص رقم پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔اپوزیشن بی جے پی نے اپنی تنگ نظری پر مبنی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اس بجٹ کو "مسلمانوں کی خوشنودی کے لیے تیار شدہ 'حلال بجٹ'" اور "پاکستانی و اسلامی بجٹ" قرار دے کر اپنی روایتی سیاست کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ بیانیہ درحقیقت ایک منظم پروپیگنڈہ کا حصہ ہے، جس کا مقصد مذہبی منافرت کو ہوا دینا اور اقلیتوں کے حقوق کو متنازع بنانا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بجٹ واقعی مسلمانوں کے لیے تھا تو اقلیتوں کے لیے صرف ایک فیصد رقم کیوں مختص کی گئی؟ کیا  ایک فیصد رقم واقعی "مسلمانوں کی خوشنودی" کا مظہر ہوسکتی ہے؟ سدارامیا نے ان الزامات کو نفرت پر مبنی سیاست کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ کہ بجٹ مباحث پر وہ اپنے خطاب میں اس کا مناسب جواب دیں گے،

یہ الزام بازی صرف سیاسی مقاصد کے تحت کی جا رہی ہے، جبکہ حقائق کچھ اور کہانی بیان کرتے ہیں۔ بی جے پی کے دورِ حکومت میں اقلیتی بہبود کی متعدد اسکیمیں یا تو ختم کر دی گئیں یا ان کے فنڈز میں بھاری کٹوتیاں کی گئیں۔بی جے پی حکومت نے کرناٹک میں اقلیتی اسکالرشپ فنڈ میں 50 فیصد سے زیادہ کٹوتی کر دی تھی ،اقلیتی طلبہ کے تعلیمی قرضے دینے والے اداروں کو مالی مشکلات میں دھکیل دیا گیا تھا۔اوقافی املاک کے تحفظ کے منصوبے کو ختم کر دیا گیا تھا۔

ان سب کے باوجود، جب کانگریس حکومت نے اقلیتوں کے لیے کچھ اقدامات کیے تو بی جے پی اسے ہدفِ تنقید بنا رہی ہے، حالانکہ یہ اقدامات گزشتہ حکومتوں کی ناانصافیوں کی معمولی تلافی بھی نہیں کرتے۔

کرناٹک حکومت کی جانب سے بجٹ میں اقلیتوں کے لیے چند مثبت اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے، جن میں اقلیتی اکثریتی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک ہزار کروڑ روپے کا ایکشن پلان، اماموں اور مؤذنین کے اعزازیہ میں اضافہ۔ مدارس میں عصری تعلیم کے فروغ کے لیے مخصوص فنڈ۔اوقافی املاک و قبرستانوں کے تحفظ کے لیے 150 کروڑ روپے۔ این جی اوز کے ذریعے اجتماعی شادیوں میں سادگی سے شادی کرنے والے جوڑوں کو 50 ہزار روپے امداد۔16 مقامات پر وقف املاک پر گرلز کالجز کا قیام۔

سو منتخب اردو اسکولوں کو مولانا آزاد پبلک اسکولز میں ترقی دینے کا منصوبہ۔جین، بدھ، سکھ برادری کے لیے 100 کروڑ روپے کا خصوصی فنڈ۔عیسائیوں کے فلاحی منصوبوں کے لیے 250 کروڑ روپے۔ سرکاری ٹھیکوں اور ٹینڈرز میں اقلیتی برادری کے لیے 4 فیصد ریزرویشن۔وغیرہ شامل ہیں۔یہ اقدامات اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی اقلیتوں کی ضروریات کے لیے کافی ہیں؟

یہ اقدامات بجٹ میں نظر تو آ رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان‌پر مثبت انداز میں عمل ہوگا۔

اگرچہ اقلیتی بہبود کے فنڈ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اضافہ کیا گیا ہے (پچھلے سال تقریباً 3,000 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے)، مگر اب 4,500 کروڑ روپے کا یہ بجٹ کرناٹک کی اقلیتوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ اس کی چند وجوہات درج ذیل ہیں‌۔ جیسے تعلیم کے میدان میں فنڈز ناکافی ہیں ،اردو اور دیگر اقلیتی زبانوں کے اسکول پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہیں، لیکن تعلیمی فنڈ صرف علامتی طور پر دیا گیا ہے۔اوقافی املاک کے تحفظ کے لیے فنڈ محدود ہے، 150 کروڑ روپے کا بجٹ کرناٹک کی ہزاروں ایکڑ وقف املاک کے تحفظ کے لیے ناکافی ہے۔سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کے لیے واضح مواقع کا فقدان ہے، ریزرویشن کے باوجود، سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کی نمائندگی بدستور کم ہے۔ بی جے پی حکومت کی جانب سے منسوخ کی گئی اسکیموں کی بحالی کی کوشش نہیں کی گئی۔

یہ بجٹ اقلیتی بہبود کے حوالے سے سابقہ حکومت کے مقابلے میں نسبتاً بہتر تو ہے، مگر یہ اب بھی اقلیتوں کو درپیش حقیقی مسائل کا مکمل حل پیش نہیں کرتا۔ کانگریس حکومت نے انتخابات سے قبل اقلیتوں کے لیے بڑے بڑے وعدے کیے تھے، جن میں دس ہزار کروڑ روپے کاخصوصی فنڈ بھی شامل تھا، مگر بجٹ میں اس وعدے کو نظرانداز کیا گیا۔ایک طرف بی جے پی جیسی جماعتیں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے نفرت پھیلانے کا کام کررہی ہیں تو وہیں بظاہر سیکولر کہلانے والی جماعتیں بھی مسلمانوں کے ووٹ بٹورنے کے بعد ان کو ان کا جائز حق و مقام دینے میں ناکام ہیں،اپوزیشن کے خوف سے مسلمانوں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ،کرناٹک ہی میں بجٹ کی تیاریوں کے اجلاس سے مسلمانوں کی سماجی تنظیموں ،ملی اداروں اور مذہبی قیادت کو دور رکھا گیا ، اور جب بجٹ کی باری آئی تو ایک فیصد کی رقم مختص کرکے بہلا دیا گیا اور مسلمانوں کو بجٹ کی تیاریوں سے دور رکھ کر اپنے آپ کو محفوظ تصور کرنے والی حکومت کو پھر بھی تنقیدوں کا سامنا کرناپڑرہا ہے ، دونوں طرف سے نقصان صرف مسلمانوں کا ہی ہورہاہے۔  

یہاں حقیقت اور سیاست کا فرق واضح ہوتا ہے۔ ایک طرف بی جے پی اقلیتوں کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہی ہے، تو دوسری طرف کانگریس بھی اپنے وعدے پورے کرنے میں پس و پیش کر رہی ہے۔ اگر اقلیتوں کو صرف انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا، تو ان کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔

کرناٹک بجٹ 2025 ایک سیاسی موقع بھی ہے اور ایک امتحان بھی۔ اگر اقلیتی برادری نے اپنی آواز بلند نہیں کی اور اپنے حقوق کے لیے منظم جدوجہد نہیں کی، تو یہ بجٹ بھی محض سیاسی چال ثابت ہوگا، جس کے منفی اثرات آنے والی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔

اب وقت آگیا ہے کہ اقلیتیں حکومتوں سے صرف وعدے نہ سنیں بلکہ ان وعدوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کریں۔ اگر بجٹ میں مختص رقوم شفاف انداز میں خرچ نہیں ہوئیں، اگر منصوبے صرف کاغذوں تک محدود رہے، تو یہ ایک اور سیاسی دھوکہ بن جاییگا ‌۔

(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)


Share: