ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / آئین ایک زندہ دستاویز، صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کا قوم سے خطاب

آئین ایک زندہ دستاویز، صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کا قوم سے خطاب

Sun, 26 Jan 2025 11:08:12  Office Staff   S.O. News Service

  نئی دہلی ، 26/جنوری (ایس او نیوز /ایجنسی)یوم جمہوریہ کے موقع پر صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے ملک کے نام اپنے خصوصی خطاب میں اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن کے ذریعے نشر کیے گئے اس خطاب میں صدر جمہوریہ نے قوم کی ترقی، آئین کی اہمیت، اور اتحاد کے پیغام کو اجاگر کیا۔ ان کے خطاب کا مکمل متن یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

اس تاریخی موقع پر آپ سب سے خطاب کرتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ یوم جمہوریہ کی ماقبل شام، میں آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔آج سے 75برس قبل 26 جنوری کے دن ہی جمہوریہ ہندکی بنیادی کتاب یعنی ہندوستان کا آئین، نافذ ہواتھا۔

تقریباً تین سال کے غور و فکر کے بعد، آئین ساز اسمبلی نے 26 نومبر 1949 کے دن آئین کو اپنایا تھا۔ اس مناسبت سے سال 2015 سے 26 نومبر کو یوم آئین کے طور پر منایا جاتا ہے۔

یوم جمہوریہ کا جشن، تمام ہم وطنوں کے لیے اجتماعی خوشی اور فخر کا باعث ہوتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی قوم کی تاریخ میں 75 سال کا عرصہ پلک جھپکنے کے مترادف ہے۔ لیکن میرے خیال میں ہندوستان کے گزشتہ 75 برسوں کے تناظر میں ایسا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔ یہ وہ دور ہے جس میں ہندوستان کی روح جو ایک طویل عرصے سے سوئی ہوئی تھی، دوبارہ بیدار ہوئی ہے اور ہمارا ملک عالمی برادری میں اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھا ہے۔ ہندوستان، جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے، علم و حکمت کا ماخذ سمجھا جاتا تھا،لیکن، ہندوستان کو ایک تاریک دور سے گزرنا پڑا۔ نوآبادیاتی دور میں، غیر انسانی استحصال کی وجہ سے ملک میں انتہائی غربت پھیل گئی۔

آج کے دن، سب سے پہلے ہم ان بہادروں کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے مادر وطن کو غیر ملکی حکمرانی کی بیڑیوں سے آزاد کرانے کے لیے عظیم ترین قربانیاں دِیں۔ لوگ، اُن میں سے کچھ مجاہدین آزادی کے بارے میں جانتے ہیں، لیکن ان میں سے کئی کے بارے میں ان کے پاس معلومات نہیں تھیں۔ اس سال، ہم بھگوان برسا منڈا کا 150 واں یوم پیدائش منا رہے ہیں۔ اُن کا شمار ایسے سرکردہ مجاہدین آزادی میں ہوتا ہے جن کے کردار کو اب قومی تاریخ کے تناظر میں اہمیت دی جا رہی ہے۔

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں مجاہدین آزادی کی جدوجہد نے ایک منظم ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ یہ ملک کی خوش قسمتی تھی کہ مہاتما گاندھی، رابندر ناتھ ٹیگور اور بابا صاحب امبیڈکر جیسی عظیم ہستیوں نے ہمارے ملک کی جمہوری اقدار کو پھر سے زندہ کیا۔ انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارہ،صرف آئینی تصورات نہیں ہیں جن سے ہم جدید دور میں متعارف ہوئے ہیں بلکہ، زندگی کی یہ قدریں ہمیشہ ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ رہی ہیں۔ اُن ناقدین کو جنہوں نے نئے آزاد ہندوستان کے آئین اور جمہوریہ کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا، اُنہیں زندگی کے اِن ہی اقدار کی بنیاد پر غلط ثابت کیا جا سکا۔

ہندوستان کی جمہوری اقدار کا عکس ہمارے آئین ساز اسمبلی کے ڈھانچے میں بھی نظر آتا ہے۔ اُس اسمبلی میں ملک کے تمام حصوں اور تمام برادریوں کی نمائندگی تھی۔ سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئین ساز اسمبلی میں سروجنی نائیڈو، راج کماری امرت کور، سوچیتا کرپلانی، ہنسابین مہتا اور مالتی چودھری جیسی15 غیر معمولی خواتین بھی شامل تھیں۔ جہاں دنیا کے کئی حصوں میں خواتین کی برابری کو ایک دُور کا آئیڈیل سمجھا جاتا تھا، وہیں ہندوستان میں، خواتین ملک کی تقدیر کی تشکیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں۔

ہمارا آئین ایک زندہ دستاویز بن گیا ہے کیونکہ شہریوں کی وفاداری صدیوں سے ہمارے اخلاقی نظریے کا کلیدی عنصر رہی ہے۔ ہمارا آئین ہندوستانیوں کے طور پر ہماری اجتماعی شناخت کی بنیاد ہے، جو ہمیں ایک خاندان کی طرح متحد کرتا ہے۔ گذشتہ75 برسوں سے آئین نے ہماری ترقی کی راہ ہموار کی ہے۔ آج کے دن، ہم آئین ساز اسمبلی کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، اسمبلی کے دیگر معزز اراکین، آئین سازی سے وابستہ مختلف عہدیداروں اور دیگر کا شکریہ ادا کرتے ہیں جن کی محنت کے نتیجے میں ہمیں آئین کا شاندار تحفہ حاصل ہوا ہے۔

آئین کے نفاذ کے بعد سے یہ 75 سال ہماری نوجوان جمہوریت کی ہمہ گیر ترقی کے گواہ ہیں۔ آزادی کے وقت اور اُس کے بعد بھی ملک کے بڑے حصوں میں انتہائی غربت اور بُھکمری کے حالات برقرار تھے۔ لیکن، ہماری خود اعتمادی کبھی متزلزل نہیں ہوئی۔ ہم نے ایسا سازگار ماحول پیدا کرنے کا عزم کیا جس میں ہر کسی کو ترقی کا موقع ملے۔ ہمارے کسان بھائی-بہنوں نے سخت محنت کی اور ہمارے ملک کو اناج کی پیداوار میں خود کفیل بنایا۔ ہمارے مزدور بھائی-بہنوں نے انتھک محنت کی اور ہمارے انفرااسٹرکچر اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کی قسمت بدل دی۔ اُن کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے آج ہندوستانی معیشت، عالمی اقتصادی منظرنامے پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ آج کا ہندوستان بین الاقوامی فورم پر قائدانہ مقام حاصل کر رہا ہے۔یہ زبردست تبدیلی، آئین میں طے شدہ فریم ورک کے بغیر ممکن نہیں تھی۔

حالیہ برسوں میں معاشی ترقی کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے، جس سے ہمارے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، کسانوں اور مزدوروں کے ہاتھ زیادہ پیسہ آیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو غربت سے نکالاجا سکا۔ دور اندیشی پر مبنی جرأت مندانہ معاشی اصلاحات کی بدولت آنے والے برسوں میں ترقی کی یہ رفتار جاری رہے گی۔ شمولیت پر مبنی پیش قدمی ہماری ترقی کی بنیاد ہے، جس سے کہ ترقی کے ثمرات زیادہ سے زیادہ ہم وطنوں تک پہنچتے ہیں۔

حکومت کی طرف سے مالی شمولیت کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے، اس لیے پردھان منتری جن دھن یوجنا، پردھان منتری جیون جیوتی بیمہ یوجنا، پردھان منتری سُرکشا بیمہ یوجنا، مدرا یوجنا، اسٹینڈ اپ انڈیا اور اٹل پنشن یوجنا جیسی مالی معاونت کی اسکیمیں وضع کی گئی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مختلف قسم کی مالی امداد فراہم کی جا سکے۔

یہ بھی ایک بہت اہم تبدیلی ہے کہ حکومت نے عوامی فلاح و بہبود کی تعریف ہی بدل دی ہے جس کے مطابق بنیادی ضروریات کی چیزوں مثلاً رہائش اور پینے کے پانی کو بنیادی حقوق تصور کیا گیا ہے۔ پسماندہ طبقات خصوصاً درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کی مدد کے لیے تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ درج فہرست ذات کے نوجوانوں کے لیے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ، نیشنل فیلو شپ، غیر ملکی اسکالرشپ، ہاسٹل اور کوچنگ کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ پردھان منتری انوسوچت جاتی ابھیو دے یوجنا کے ذریعے روزگار اور آمدنی کے مواقع پیدا کرکے درج فہرست ذات کے لوگوں کی غریبی کو تیزی سے کم کیا جا رہا ہے۔ درج فہرست قبائل کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے خصوصی اسکیمیں تیار کی گئی ہیں، جن میں دھرتی آبا جنجاتیہ گرام اُتکرش ابھیان اورپردھان منتری جنجاتیہ آدیواسی نیا ئےمہا ابھیان - پی ایم-جن من شامل ہیں۔ آزاد، خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش برادریوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے ایک بور ڈ تشکیل دیا گیا ہے۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران، فزیکل انفرااسٹرکچر کی ترقی پر زور دیا گیا ہے، جن میں سڑکیں، ریلوے، بندرگاہیں اور لاجسٹک ہب شامل ہیں۔اِس سے ایک ایسی مضبوط بنیادبن گئی ہے جو آنے والی دہائیوں میں ہماری ترقی کومضبوطی فراہم کرے گی۔

حکومت نے مالی شعبے میں ٹیکنالوجی کا جس طرح استعمال کیا ہے وہ ایک مثال ہے۔ ڈیجیٹل ادائیگی کے مختلف متبادل کے ساتھ ساتھ فائدے کی براہ راست منتقلی کے نظام نے شمولیت کو فروغ دیا ہے، جس سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو باقاعدہ نظام کے تحت شامل کیا جا سکا ہے۔ جس کی وجہ سے نظام میں غیر معمولی شفافیت بھی آئی ہے۔ اس عمل میں چند برسوں میں ہم نے ایک ایسا مضبوط ڈیجیٹل پبلک انفرااسٹرکچر تیار کیا ہے جو دنیا کے بہترین انفرااسٹرکچر میں شامل ہے۔

انسول وینسی اینڈبینک کرپسی کوڈ جیسے جرات مندانہ اقدامات کے نتیجے میں، بینکنگ سسٹم اب اچھی حالت میں آگیا ہے۔ اس سے شیڈولڈ کمرشل بینکوں کے نَن پرفارمنگ ایسیٹس میں نمایاں کمی آئی ہے۔

ہم نے 1947میں ہی آزادی حاصل کر لی تھی، لیکن نوآبادیاتی ذہنیت کے بہت سے اثرات طویل عرصے تک برقرار رہے۔ حالیہ دنوں میں، ہم اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کی کارگر کوششوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ایسی کوششوں میں انڈین پینل کوڈ، کریمنل پروسیجر کوڈ اور انڈین ایویڈنس ایکٹ کی جگہ انڈین جوڈیشل کوڈ، انڈین سول ڈیفنس کوڈ اور انڈین ایویڈینس ایکٹ کو نافذ کرنے کا فیصلہ قابل ذکر ہے۔انصاف کی ہندوستانی روایات پر مبنی فوجداری نظام کے اِن نئے ایکٹ کے مرکز میں سزا کے بجائے انصاف کی روح کو برقرار رکھا گیا ہے۔ مزیدیہ کہ اِن نئے قوانین میں خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔

اِس قدر وسیع پیمانے پر اصلاحات کے لیے جرات مندانہ وژن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک میں بیک وقت انتخابات کرانے کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا بل ایسی ہی ایک اور کوشش ہے جس کے ذریعے گڈ گورننس کو ایک نئی جہت دی جا سکتی ہے۔ ’ون نیشن ون الیکشن‘ نظام سے گورننس میں تسلسل کو فروغ مل سکتا ہے، پالیسی سازی سے متعلق جمودکو ختم کیا جا سکتا ہے، وسائل کے بے دریغ استعمال کا امکان کم کیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی مالی بوجھ کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ اِن کے علاوہ اِن سے مفاد عامہ کے پیش نظر اور بھی بہت سے فائدے ہوسکتے ہیں۔

اپنے ثقافتی ورثے کے ساتھ ہمارا رشتہ مزید گہرا ہوا ہے۔ اس وقت جاری پریاگ راج مہا کمبھ کو اپنے بھرپور ورثے کے موثر اظہار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ثقافت کے میدان میں ہماری روایات اور رسم و رواج کو برقرار رکھنے اور ان میں نئی توانائی پیدا کرنے کے لیے بہت سی حوصلہ افزا کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ہندوستان کی سرزمین عظیم لسانی تنوع سے آراستہ ہے۔ اسے برقرار رکھنے اور اس روایت کو آگے بڑھانے کے لیے، حکومت نے اسمیا، بنگلا، مراٹھی، پالی اور پراکرت کو کلاسیکی زبانوں کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ تمل، سنسکرت، تیلگو، کنڑ، ملیالم اور اوڑیا زبانیں پہلے سے ہی کلاسیکی زبانوں میں شامل ہیں۔حکومت اب اِن 11 کلاسیکی زبانوں میں تحقیقی عمل کو فروغ دے رہی ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ گجرات کے وڈنگر میں ہندوستان کے پہلے آرکیالوجیکل ایکسپریمنٹ میوزیم کا کام مکمل ہونے والا ہے۔ یہ میوزیم آثار قدیمہ کی سائٹ سے منسلک ہے۔ اِس مقام پر تقریباً 800 قبل مسیح کے انسانی رہائش کے شواہد ملے ہیں۔ اس میوزیم میں مختلف ادوار کے مختلف اقسام کے فن، دستکاری اور ثقافتی فن پاروں کی نمائش کی جائے گی۔

ہماری آج کی نوجوان نسل کل کے ہندوستان کی تعمیر کرے گی۔ ہماری نوجوان نسل کی صلاحیتیں تعلیم کے ذریعے ہی نکھرتی ہیں۔ اس لیے حکومت نے تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے اور تعلیم سے متعلق ہر معیار کو بہتر بنانے کے لیے جامع کوششیں کی ہیں۔ اب تک کے نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں۔ گذشتہ دہائی کے دوران، تعلیم کے معیار، فزیکل انفرااسٹرکچر اور ڈیجیٹل شمولیت کے شعبے میں زبردست تبدیلی آئی ہے۔ تعلیم کی مختلف سطحوں پر علاقائی زبانوں کو، ذریعۂ تعلیم کے طور پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ توقع کے مطابق طلباء کی کارکردگی میں نمایاں بہتری بھی آئی ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ خواتین ٹیچروں نے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران نئے اساتذہ میں خواتین کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ ہے۔

پیشہ ورانہ تعلیم اور ہنر کا فروغ اور اُنہیں مرکزی دھارے میں شامل کیا جانا ایک خوش آئند حصولیابی ہے۔ اِس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اب ہمارے نوجوانوں کو منصوبہ بند طریقے سے کارپوریٹ سیکٹر میں انٹرن شپ کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔

اسکول کی سطح پر تعلیم کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں تعلیم کے حصول کے مختلف شعبوں، خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نئی بلندیاں حاصل کی جا رہی ہیں۔ انٹلیکچوئل پراپرٹی فائلنگ کے معاملے میں ہندوستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ گلوبل انوویشن انڈیکس میں ہندوستان کی درجہ بندی میں مسلسل بہتری آئی ہے۔ سال 2020 میں ہندوستان 48 ویں نمبر پر تھا۔اپنی پوزیشن بہتر کرتے ہوئے سال 2024 میں ہندوستان 39ویں نمبر پر آگیا ہے۔

بڑھتے ہوئے اعتماد کے ساتھ، ہم متعدد اقدامات کے ذریعے جدید تحقیق میں اپنی حصہ داری بڑھا رہے ہیں۔ نیشنل کوانٹم مشن کا مقصد ٹیکنالوجی کے اِس نئے شعبے میں ایک متحرک اور جدید ایکو سسٹم تیار کرنا ہے۔ ایک اور قابل ذکر اقدام نیشنل میشن آن انٹر ڈسپلنری سائبر فزیکل سسٹم سے متعلق ہے۔ اس کے تحت آرٹیفیشل انٹیلی جنس، مشین لرننگ، روبوٹکس اور سائبر سیکیورٹی جیسی کئی جدید ٹیکنالوجیوں پر کام کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ ٹیکنالوجیز جو کچھ عرصہ پہلے تک مستقبل کی باتیں سمجھی جاتی تھیں، اب تیزی سے ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن رہی ہیں۔

جینوم انڈیا پروجیکٹ نہ صرف قدرت کے رازوں کو دریافت کرنے کی ایک دلچسپ مہم ہے، بلکہ یہ ہندوستانی سائنس کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن باب بھی ہے۔ اِس کے اہم پروگرام کے تحت، اس ماہ 10ہزار ہندوستانیوں کی جیوم سیکوینسنگ کو تحقیق کے لیے دستیاب کرایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ،علم کی نئی جہتیں کھولے گا، بائیو ٹیکنالوجی کی تحقیق میں نئی راہیں ہموار کرے گا اور صحت عامہ کے نظام کو بھی مضبوط کرے گا۔

انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن نے حالیہ برسوں میں خلائی سائنس کے میدان میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس ماہ، اسرو نے ایک بار پھر اپنے کامیاب خلائی ڈاکنگ تجربے سے ملک کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ ہندوستان اب یہ صلاحیت رکھنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن گیا ہے۔

ایک قوم کی حیثیت سے ہمارا بڑھتا ہوا اعتماد، کھیل کے میدان میں بھی نظر آرہا ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں نے کامیابی کےروشن باب رقم کیے ہیں۔ گذشتہ سال ہمارے کھلاڑیوں نے اولمپک گیمز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پیرا لمپک گیمز میں، ہم نے اپنا اب تک کا سب سے بڑا دستہ بھیجا، جس نے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے کھلاڑیوں نے FIDE شطرنج اولمپیاڈ میں اپنی کارکردگی سے عالمی برادری کو متاثر کیا اور مرد اور خواتین کھلاڑیوں نے گولڈ میڈل جیتے۔ سال 2024 میں، ڈی گوکیش نے اب تک کا سب سے کم عمر عالمی چیمپئن بن کر تاریخ رقم کی۔

ملک بھر میں زمینی سطح پر تربیتی سہولیات میں کافی بہتری آئی ہے اور اِس کے دم پر ہمارے ایتھلیٹس نے جیت حاصل کر کے ہمیں فخر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے آنے والی نسلوں کو اوربھی اعلیٰ مقاصد حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔

بیرون ملک رہنے والے ہمارے بھائی بہنوں نے ہماری ثقافت اور تہذیب کے بہترین پہلوؤں کو دنیا کے مختلف حصوں میں پہنچایا ہے اور بہت سے شعبوں میں اپنی کامیابیوں سے ہمیں فخر کا احساس کرایا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ خود کو ہندوستان کی شاندار تاریخ سے وابستہ رکھا ہے۔ جیسا کہ میں نے اِس ماہ کے شروع میں پرواسی بھارتیہ دیوس کے موقع پر کہا تھا، مجھے سال 2047 تک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر میں این آر آئیز کی فعال اور پرجوش شرکت پر پورا بھروسہ ہے۔

مختلف شعبوں میں نمایاں اور قابل ذکر پیشرفت کے ساتھ، ہم اپنے سروں کو بلندرکھ کر مستقبل کی جانب گامزن ہیں۔ہمارے نوجوان خصوصاً ہماری بیٹیاں ملک کے روشن مستقبل کی تعمیر کریں گی۔ جب ہم اپنی آزادی کا صد سالہ جشن منا رہے ہوں گے، تب ہندوستان کا مستقبل اپنے نوجوانوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر رہا ہوگا اور جب آج کے بچے 26 جنوری 2050 کو قومی پرچم کو سلامی دے رہے ہوں گے تو وہ اپنی آنے والی نسلوں کو بتا رہے ہوں گے کہ ہمارے ملک کی شان و شوکت کا سفر ہمارے لاجواب آئین کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔

ہماری آئندہ نسلیں عالمی سطح پر آزاد ہندوستان کے نظریات کو حقیقت کی شکل دیں گی۔ میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پیغام کا ذکر کرنا چاہوں گی۔ باپو نے کہا تھا : ’’اگر سوراج کا مطلب ہمیں مہذب بنانا اور ہماری تہذیب کو خالص اور مستقل بنانا نہیں ہے، تو اِس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ہماری تہذیب کا نچوڑ یہ ہے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں اخلاقیات کو اعلیٰ مقام دیں، خواہ وہ سیاسی ہوں یا ذاتی۔‘‘

آئیے آج کے دن گاندھی جی کے خوابوں کو پورا کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کریں۔ اُن کے سچائی اور عدم تشدد کے اصول عالمی برادری کے لیےہمیشہ اہمیت کے حامل رہیں گے۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ اختیارات اور ذمہ داریاں ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اختیارات کا اصل ذریعہ ذمہ داریاں ہیں۔آئیے ہم سب کے ساتھ ہمدردی کرنے کے سلسلے میں بھی اُن کی تعلیمات کو یاد کریں۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ اپنے اطراف کے جانوروں، پرندوں، درختوں، پودوں، دریاؤں اور پہاڑوں سے بھی ہمدردی کرنی چاہیے۔

یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلی کے عالمی بحران سے نمٹنے کی کوششوں میں اپنا تعاون پیش کریں۔ اِس تناظر میں دو مثالی کوششیں کی گئی ہیں۔ عالمی سطح پر، بھارت، مشن لائف اسٹائل فار انوائرنمنٹ نامی ایک عوامی تحریک کی قیادت کر رہا ہے۔ اِس کا مقصد افراد اور کمیونٹیز کو ماحول کے تحفظ کے لیے مزیدسرگرم ہونے کی ترغیب دینا ہے۔ گذشتہ سال، عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر، ہم نے ’ایک پیڑ ماں کے نام‘ کے پیغام کے ساتھ ایک منفرد مہم شروع کی تھی، جس کے ذریعے اپنی مادری طاقت کے ساتھ ساتھ قدرت کی ہماری پرورش کرنے کی صلاحیت کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔ اس مہم کے تحت 80 کروڑ پودے لگانے کا ہدف مقررہ تاریخ سے پہلے ہی حاصل کر لیا گیا۔ عالمی برادری ایسی اختراعی کوششوں سے سبق حاصل کر سکتی ہے۔ لوگ ایسی کوششوں کو اپنے لئے باعث تحریک بنا سکتے ہیں۔

میں، ایک بار پھر، آپ سب کو یوم جمہوریہ کی مبارکباد دیتی ہوں۔ میں ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے اپنے فوجیوں کے ساتھ ساتھ سرحدوں کے اندر ملک کی حفاظت کرنے والے پولیس اور نیم فوجی دستوں کو بھی مبارکباد دیتی ہوں۔ عدلیہ، سول سروسز اور بیرون ملک ہمارے مشنوں کے ممبروں کو بھی میری مبارکباد!میری دعا ہے کہ آپ سب اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل کریں!


Share: