ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / مہمان اداریہ / 2025 کا مرکزی بجٹ:تجزیہ کاروں کے مطابق متوسط طبقہ پھر مایوس؛ مہنگائی، بے روزگاری اور مشکلات جوں کی توں برقرار

2025 کا مرکزی بجٹ:تجزیہ کاروں کے مطابق متوسط طبقہ پھر مایوس؛ مہنگائی، بے روزگاری اور مشکلات جوں کی توں برقرار

Sat, 01 Feb 2025 16:23:00  IG Bhatkali   Srinath Sridharan
2025 کا مرکزی بجٹ:تجزیہ کاروں کے مطابق متوسط طبقہ پھر مایوس؛ مہنگائی، بے روزگاری اور مشکلات جوں کی توں برقرار

نئی دہلی یکم فروری (ایس او نیوز): 2025 کے مرکزی بجٹ سے امید کی جا رہی تھی کہ یہ بھارت کے متوسط طبقے کے لیے کچھ ریلیف اور ترقی پسند اقدامات لے کر آئے گا، جو طویل عرصے سے مہنگائی، جمود کا شکار تنخواہوں، اور غیر یقینی مستقبل کا سامنا کر رہا ہے۔ ان امیدوں کو مزید تقویت اس وقت ملی جب 31 جنوری کو صدر جمہوریہ نے پارلیمنٹ سے خطاب میں متعدد بار متوسط طبقے کا ذکر کیا اور وزیر اعظم نے بھی ان کے لیے خوشحالی کی دعا کی۔ تاہم، حقیقت میں یہ بجٹ متوسط طبقے کو کوئی خاص راحت فراہم کرنے میں ناکام رہا۔

مہنگائی ایک مستقل چیلنج بنی ہوئی ہے، جو خریداری کی قوت کو کم کر رہی ہے اور ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ بے روزگاری کی شرح بھی بدستور تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، اور ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔

اس بجٹ سے توقع تھی کہ یہ نجی سرمایہ کاری کو فروغ دے گا، جو خاص طور پر مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ تاہم، بجٹ میں اس حوالے سے کوئی واضح مراعات فراہم نہیں کی گئیں۔

مینوفیکچرنگ، جو روزگار پیدا کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے، عالمی سطح پر وہ ترقی حاصل نہیں کر پایا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ بھارت کی پیداواریت اب بھی ویتنام اور تائیوان جیسے ممالک سے پیچھے ہے۔ جب تک بھارت اپنی صنعتی پیداواریت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات نہیں کرتا، اس شعبے میں ترقی کے امکانات محدود رہیں گے۔

متوسط طبقے کے لیے ایک اور اہم مسئلہ غذائی مہنگائی ہے، جو گھریلو بجٹ پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ زرعی پیداوار بڑھانے، موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق زراعت کو ڈھالنے، اور جدید زرعی طریقے اپنانے پر توجہ دیتی، مگر بجٹ میں ان معاملات پر کوئی خاص اعلان نہیں کیا گیا۔

بزرگ شہریوں کے لیے، بینکوں میں رکھی گئی رقم پر ملنے والے سود کی آمدنی ایک بڑا سہارا رہی ہے۔ اگر اس پر ٹیکس میں کمی کی جاتی تو یہ ان کے لیے بڑی راحت کا باعث بنتا، لیکن حکومت نے اس بارے میں بھی کوئی اقدام نہیں کیا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر ٹیکس میں کمی یا معیاری کٹوتی (اسٹینڈرڈ ڈیڈکشن) میں اضافہ متوقع تھا، لیکن بجٹ میں اس حوالے سے بھی کوئی خاص اعلان نہیں کیا گیا۔

رہائش متوسط طبقے کا ایک بڑا مسئلہ ہے، اور آج بھی بہت سے خاندانوں کے لیے ذاتی گھر کا خواب ادھورا ہے۔ اس حوالے سے کرایہ داروں کے لیے بہتر پالیسیاں یا ہوم لون پر مالی بوجھ کم کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، جبکہ شہری آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور رہائش کی طلب میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

اسی طرح، عوامی خدمات جیسے صحت، تعلیم، اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی توقع کی جا رہی تھی تاکہ متوسط طبقے کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکے، مگر بجٹ میں ان شعبوں پر بھی کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔

2024 کے بجٹ میں حکومت نے ماحولیاتی منصوبوں کے لیے فنڈنگ کے لیے ایک نئے طریقہ کار 'کلائمیٹ ٹیکسانومی' کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ ایک سال گزر جانے کے باوجود اس میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ یہ نظام نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کے لیے بھی ضروری ہے، تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد ملے۔ اس اہم پالیسی پر تاخیر متوسط طبقے کے مسائل کو مزید بڑھا رہی ہے، کیونکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

مختصر یہ کہ متوسط طبقہ، جو بھارت کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، ایک بار پھر حکومتی پالیسیوں میں نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ یہ بجٹ بھی اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے وعدے اور زمینی حقائق کے درمیان خلا بدستور برقرار ہے۔

(مضمون نگار سری ناتھ سریدھرن ایک کارپوریٹ مشیر اور کارپوریٹ بورڈز کے آزاد ڈائریکٹر ہیں، ان کا یہ آرٹیکل معروف انگریزی نیوز پورٹل دکن ہیرلڈ میں بجٹ کی پیشی کے کچھ ہی گھنٹوں بعد شائع ہوا ہے، جس کا اُردو ترجمہ اُن کے شکرئے کے ساتھ یہاں شائع کیا جارہا ہے۔ مضمون نگار کے خیالات سے ادارہ ساحل آن لائن کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )  


Share: