
نئی دہلی 26 مارچ (ایس او نیوز) سپریم کورٹ نے بدھ کے روز الہ آباد ہائی کورٹ کے اس متنازعہ فیصلے پر روک لگا دی، جس میں کہا گیا تھا کہ "چھاتی دبانا" اور "لڑکی کے پاجامے کی ڈور کھولنا" ریپ یا ریپ کی کوشش کے زمرے میں نہیں آتا۔ عوامی سطح پر شدید غصے کے بعد، سپریم کورٹ نے اس معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے فیصلے کو "حساسیت کی مکمل کمی" قرار دیا۔
سپریم کورٹ کی بینچ، جس میں جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح شامل تھے، نے کہا کہ یہ فیصلہ فوری طور پر نہیں سنایا گیا تھا بلکہ چار ماہ تک محفوظ رکھنے کے بعد جاری کیا گیا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اس پر غور و فکر کیا گیا تھا۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا: "ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ فیصلہ مکمل بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کسی فوری ردعمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ چار ماہ بعد سنایا گیا، جس کا مطلب ہے کہ اس پر سوچ سمجھ کر غور کیا گیا تھا۔" عدالت نے مزید کہا:
"ہم عام طور پر اس مرحلے پر فیصلے پر حکم امتناعی دینے سے گریز کرتے ہیں، لیکن اس فیصلے کے پیراگراف 21، 24 اور 26 قانونی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے اور غیر انسانی نقطہ نظر کو ظاہر کرتے ہیں، لہٰذا ہم ان مشاہدات پر روک لگاتے ہیں۔"
الہ آباد ہائی کورٹ کا متنازعہ فیصلہ
الہ آباد ہائی کورٹ نے 17 مارچ کو دو ملزمان پاون اور آکاش کی درخواست پر سماعت کی تھی، جنہیں ایک ماتحت عدالت نے ریپ کے الزامات میں طلب کیا تھا۔
الزام ہے کہ دونوں ملزمان نے ایک 11 سالہ بچی کی چھاتی دبائی، اس کے پاجامے کی ڈور کھولی اور اسے پل کے نیچے گھسیٹنے کی کوشش کی۔ اس واقعے کے بعد ان پر آئی پی سی کی دفعہ 376 (ریپ)، دفعہ 18 (اقدام جرم) اور POCSO ایکٹ کی دفعات کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
تاہم، جسٹس رام منوہر نارائن مشرا نے اپنے فیصلے میں کہا کہ "محض چھاتی دبانے کا عمل ریپ کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ یہ کسی عورت کو برہنہ کرنے یا بے لباس کرنے کی نیت سے کیے گئے حملے کے تحت آتا ہے۔" چنانچہ، انہوں نے ملزمان پر ریپ کے الزامات خارج کرتے ہوئے POCSO ایکٹ کی دفعہ 354-B (عورت کے کپڑے اتارنے کے لیے طاقت کا استعمال) اور دفعہ 9 (جنسی حملہ) کے تحت مقدمہ چلانے کا حکم دیا، جو نسبتاً کم سخت سزا کا متقاضی ہے۔
جسٹس مشرا کے اس فیصلے پر شدید تنقید کی جا رہی تھی۔ کئی وکلاء اور سماجی کارکنوں نے سپریم کورٹ سے اس معاملے میں مداخلت کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے نوٹس لیتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔