
بنگلور یکم مارچ (ایس او نیوز): ایسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کے سینئر وکیل اور سرگرم رکن ایڈوکیٹ بی ٹی وینکٹیش اور اے پی سی آر کی نائب صدر و انسانی حقوق کی کارکن ایڈووکیٹ اکھیلا ودیاسندرا نے الزام لگایا کہ کاسرکوڈ بندرگاہ تنازعہ کے سلسلے میں ٹونکا کے ماہی گیروں پر مسلسل پولیس زیادتیاں کی جا رہی ہیں اور اسے روکنا ضروری ہے۔
اے پی سی آر کے زیراہتمام بنگلور پریس کلب میں منعقدہ پریس کانفرنس میں اخبارنویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے پولس اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ کانگریس سرکار کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سوال کیا کہ جو وُزراء الیکشن سے قبل تک ان غریب ماہی گیروں کے ساتھ کھڑے تھے، اقتدار ہاتھ میں آتے ہی اچانک خاموش کیوں ہوگئے ہیں ؟
پریس کانفرنس میں شریک کاسرکوڈ کے ماہی گیر لیڈرس گنپتی تانڈیل اور رینوکا گنپتی تانڈیل سمیت دیگر ذمہ داران نے اپنے مسائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کو گھروں سےبے دخل کرنے کی کوششیں پولیس کی نگرانی میں کی جا رہی ہیں اور اس میں ضلعی انتظامیہ کی منظوری بھی شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کئی دہائیوں قبل ملّوکُرووا گاؤں بحیرہ عرب میں ڈوب گیا تھا، جس کے بعد حکومت نے بے گھر ماہی گیروں کو سروے نمبر 303 میں زمینیں الاٹ کیں۔ ان ماہی گیروں کو کئی سال پہلے قانونی دستاویزات فراہم کی گئیں، اور وہ تب سے وہاں مقیم ہیں۔ ٹونکا 1 اور ٹونکا 2 نامی گاؤں کی اپنی پنچایتیں بھی موجود ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں ان کی زمین کے سروے ریکارڈز غائب کر دیے گئے ہیں۔
حکومت کا اب یہ دعویٰ ہے کہ سروے نمبر 303 موجود ہی نہیں ہے۔ وکلاء نے بتایا کہ ماہی گیروں کے پاس قانونی دستاویزات ہونے کے باوجود، وہ گزشتہ چار سالوں سے اتر کنڑا ضلع انتظامیہ کو درخواستیں دے رہے ہیں، لیکن حکام مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سابقہ حکومت نے اس زمین کو ایک حیدرآباد کی کمپنی کے لیے مائننگ پورٹ کے طور پر مختص کیا تھا اور یقین دہانی کرائی تھی کہ دیہاتیوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم، گزشتہ چند سالوں سے ماہی گیروں کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے اور انہیں بے دخل کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ مرد و خواتین سبھی کے خلاف بے جا مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، اور ماہی گیر اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
حال ہی میں پولیس نے گھروں میں گھس کر نئے سروے کے نام پر کارروائی کی، دفعہ 144 نافذ کر کے احتجاج کرنے والے ماہی گیروں کو گرفتار کر لیا۔ اتر کنڑا ایس پی نارائن کا کہنا ہے کہ ٹونکا 1 اور ٹونکا 2 میں ماہی گیروں نے غیر قانونی طور پر مکانات تعمیر کیے ہیں۔ پچھلے انتخابات کے دوران، ماہی پروری کے وزیر منکال ویدیا اور کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار نے ماہی گیروں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی حکومت اقتدار میں آئی تو انہیں انصاف فراہم کیا جائے گا۔ اس وعدے کی ویڈیو ثبوت بھی موجود ہیں۔ لیکن اب، جب کہ پولیس ماہی گیروں پر ظلم کر رہی ہے، یہ تمام رہنما خاموش بیٹھے ہیں۔
پولیس نے اب ماہی گیروں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کر کے 30 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے، جبکہ دیگر افراد روپوش ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ وکلاء نے کہا کہ یہ ماہی گیر صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں اور ماہی گیری کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہیں ہے۔ حکومت کے اقدامات ان کے روزگار اور طرز زندگی کو تباہ کر رہے ہیں، جو کہ اس کے غریب پرور ہونے کے دعووں کے خلاف ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ماہی گیروں کے خلاف درج تمام مقدمات فوری طور پر واپس لیے جائیں، نئے سروے کو روکا جائے، ماہی گیروں پر ظلم وزیادتی کرنے والے ضلعی حکام کو معطل کیا جائے، اور لاپتہ سروے نمبر 303 کو بحال کیا جائے۔ اے پی سی آر نے ماہی گیروں کو پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے ظلم سے تحفظ فراہم کرنے اور زیادتیوں میں ملوث پولیس اہلکاروں اور ضلعی افسران کے خلاف سخت کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔ اے پی سی آر نے ماہی گیروں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی
اے پی سی آر کے جنرل سیکریٹری محمد نیاز بھی اس موقع پر موجود تھے۔
پریس کانفرنس کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔