ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپیشل رپورٹس / کرناٹک میں مردم شماری کا آئینہ: مسلمانوں کی تعداد زیادہ، طاقت کم کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک میں مردم شماری کا آئینہ: مسلمانوں کی تعداد زیادہ، طاقت کم کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

Sat, 19 Apr 2025 17:05:28    S O News

کرناٹک کی سیاست میں ذات پات کا جادو کوئی نیا کھیل نہیں، لیکن جب بھی یہ مسئلہ دوبارہ منظرِ عام پر آتا ہے تو اس کے ساتھ کئی تلخ حقائق، فریب انگیز دعوے، نئی امیدیں اور گہرے خدشات بھی جنم لیتے ہیں۔ 2023 کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی فضا نے یہ سوال ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے کہ آیا ریاست واقعی مساوات، انصاف اور شراکت داری کی سمت گامزن ہے، یا اقتدار اب بھی مخصوص طبقات کے قلعے میں محصور ہے؟

ریاستی پسماندہ طبقات کمیشن کی جانب سے تیار کردہ ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ، جو حال ہی میں ریاستی کابینہ کے سامنے پیش کی گئی، محض ایک اعدادی خاکہ نہیں، بلکہ ایک ایسا سیاسی بیانیہ ہے جو اقتدار کے پرانے توازن کو چیلنج کرتا ہے۔ لیکن جیسے ہی رپورٹ کے اہم نکات سامنے آئے، حکومتی سطح پر پیدا ہونے والا تذبذب اس بات کا اشاریہ ہے کہ خود کو مساوات کا علمبردار کہنے والی جماعتیں بھی روایت پرستی اور مفاد پرستی سے آزاد نہیں ہو پائیں۔

رپورٹ کے مطابق ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 12.3 فیصد ہے، جو کہ تقریباً 90 لاکھ نفوس پر مشتمل ایک نمایاں سماجی طاقت ہے۔ اس کے باوجود، ریاست کی اعلیٰ قیادت میں ان کی غیر موجودگی ایک افسوسناک حقیقت ہے۔ آج تک کوئی مسلمان کرناٹک کا وزیر اعلیٰ نہیں بن سکا۔ وکلیگا اور لنگایت برادریاں، جنہیں رپورٹ میں بالترتیب 11 اور 13.6 فیصد دکھایا گیا ہے، ریاستی اقتدار پر دہائیوں سے غالب رہی ہیں۔ ان ہی طبقات کو وزیر اعلیٰ کی کرسی، کابینہ میں اکثریت اور پالیسی سازی کا اختیار حاصل رہا۔ رپورٹ کے اعداد و شمار اس دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ یہی طبقات آبادی کی اکثریت رکھتے ہیں، اور یہی بات اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل پیدا کر رہی ہے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ 2023 کے اسمبلی انتخابات کے بعد جہاں مسلمانوں کے 12.3 فیصد کے مقابلے صرف 10 مسلمان ایم ایل اے منتخب ہو سکے، وہیں وکلیگا طبقے کے 46 اور لنگایت طبقے کے 56 اراکین اسمبلی میں پہنچے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا اس کے پیچھے کوئی گہرا سماجی و سیاسی تعصب موجود ہے؟ موجودہ کابینہ میں بھی محض دو مسلم وزراء کی شمولیت یہی سوال مزید واضح کرتی ہے۔

سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ مسلم نمائندے اس امتیازی رویے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ پارٹی کے وفادار تو بنے رہتے ہیں، مگر قوم کے اجتماعی مفادات پر لب کشائی سے گریز کرتے ہیں۔ ذات پات پر مبنی مردم شماری رپورٹ کے بعد جبکہ مسلمانوں کی سیاسی و سماجی پسماندگی واضح ہو چکی ہے، تو کیا یہ وقت نہیں کہ کانگریس اور دیگر جماعتیں ان حقائق کی روشنی میں اقلیتوں کی قیادت کو سنجیدگی سے آگے بڑھائیں؟ یا یہ رپورٹ بھی محض ایک انتخابی ہتھیار بن کر رہ جائے گی؟

اس وقت سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا مسلمان اپنی سیاسی حکمتِ عملی پر نظرثانی کے لیے تیار ہیں؟ کیا صرف سیکولر جماعتوں کو ووٹ دینا کافی ہے؟ یا قیادت کے حصول کے لیے ایک نئی اجتماعی سوچ، عوامی بیداری اور سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے؟ اگر نمائندگی کا معیار آبادی، محرومی اور سماجی صورتحال پر مبنی ہو، تو مسلمانوں سمیت تمام پسماندہ طبقات کو اقتدار میں مناسب شراکت داری ملنی چاہیے۔

یہ رپورٹ محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جو بتا رہا ہے کہ مسلمان ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اقتدار سے دور رکھے گئے ہیں۔ جہاں دیگر برادریاں اپنی عددی طاقت کی بنیاد پر اقتدار میں حاوی ہو رہی ہیں، وہیں مسلمانوں کو محض انتخابی ایندھن بنا دیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف سیاسی استحصال ہے بلکہ اقلیتوں کی آئندہ نسلوں کے مستقبل پر بھی ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔

کنڑا میڈیا نے بھی اس رپورٹ پر جرأت مندانہ انداز میں بحث کی ہے۔ کئی اخبارات نے صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ اگر یہ رپورٹ نافذ ہوئی تو ریاست کی سیاسی ساخت میں زلزلہ آ سکتا ہے، اور روایتی اجارہ داری رکھنے والے طبقات کی بالادستی کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

تاہم ریاستی حکومت کا اس معاملے میں پس و پیش اور رپورٹ پر فیصلے کو 2 مئی تک مؤخر کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ فیصلہ سازی کا مرکز اب بھی مساوات سے زیادہ انتخابی فائدے کی بنیاد پر قائم ہے۔ کئی وزراء کا رپورٹ کو مسترد کرنے کا عندیہ دینا اسی سیاسی تذبذب کی عکاسی کرتا ہے، جو ملک کی جمہوریت کو مسلسل کمزور کرتا آ رہا ہے۔

اقتدار کے دروازے پر بیٹھے طبقے تبدیلی سے خوف زدہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر مسلمانوں اور دیگر محروم طبقات کو ان کا جائز حق دے دیا گیا تو ان کی نسل در نسل قائم اجارہ داری کا خاتمہ ہو جائے گا۔

لہٰذا، وقت آ گیا ہے کہ مسلمان اس صورتحال کو محض شکایت کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ اپنی سیاسی حکمت عملی از سرِ نو ترتیب دیں، قیادت میں اعتماد پیدا کریں اور اپنے اجتماعی شعور کو ایک نئی سمت دیں۔ بصورت دیگر، وہ محض تماشائی بنے رہیں گے اور اقتدار کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔

(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)


Share: