
نئی دہلی ، 15/ اپریل (ایس او نیوز /ایجنسی)مرشد آباد، مغربی بنگال میں وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کے دوران پیش آئے تشدد اور پولیس فائرنگ کے واقعے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سخت مذمت کی ہے۔ بورڈ نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے، اور جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو کم از کم 25 لاکھ روپے کی عبوری مالی امداد فراہم کی جائے۔ بورڈ نے مغربی بنگال اور آسام میں احتجاج کے دوران پیش آئے پرتشدد واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ملک بھر کے مسلم نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور پرامن طریقے سے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔
بورڈ نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وقف قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ضرورکریں لیکن اس کو پرامن رکھیں۔ بورڈ نے مسلمانوں پر زور دیا کہ مظاہروں کی کامیابی اسی میں مضمر ہے کہ پوری تحریک پر امن اور قانون کے دائرے میں ہو۔بورڈکے قائدین نے مشورہ دیا کہ ’’ ہم کوشش کریں کہ ہمارے پروگراموں اور ہماری صفوں میں انصاف پسند برادران وطن کی ہر وقت ایک بڑی تعداد موجود رہے۔‘‘مرشد آباد کے تشدد کو بی جےپی جس طرح فرقہ وارانہ رنگ دیکر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے،اس پس منظر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج اورمظاہروں کو ہندو مسلم رنگ نہ دینے پر زور دیا۔بورڈ نے کہا کہ ’’مسلمانوں کو اللہ سےاپنے تعلق کو مضبوط رکھ کر، اس پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور خدا کی مدد مانگتے رہنا چاہئے۔اس کے ساتھ ہی ملک کے مسلمان اگر اپنی تحریک پر امن اور قانون کے دائرے میں چلائیں گے تو کامیابی مل کر رہے گی۔‘‘
پیر کو بورڈ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہےکہ’’ مرشد آباد ( مغربی بنگال ) کے احتجاجی جلوس پر پولیس کی بربریت نے ۳؍مسلم نو جوانوں کی جان لے لی ، جس کی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور مغربی بنگال کی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خاطی افسران کے خلاف سخت کاروائی کرے اور ہلاک ہونے والے ہر فرد کے خاندان کو ۲۵؍ لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا کرے۔‘‘ بورڈ نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا کہ پولیس کو سختی سے تاکید کی جائے کہ وہ کسی بھی احتجاج سے نمٹنے میں انتہائی ضبط وتحمل سے کام لے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، نائب صدور اور جنرل سیکریٹریز کے دستخط کے ساتھ جاری کئے گئے بیان میں متنبہ کیا ہے کہ شر پسند عناصر مظاہروں کے دوران’’ آپ کی صفوں میں شامل ہو کر انتشار و بدامنی نہ پیدا کریں۔‘‘ بورڈ نے مظاہرے پرسنل لاء بورڈ کےمقامی ذمہ داران کی سرپرستی میں کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’ ہر کس و ناکس اور اجنبی افراد کی کال پر لبیک نہ کہیں۔ جب تک کہ بورڈ یا کوئی معتبر د ینی تنظیم کوئی کال نہ دے اس پر بالکل توجہ نہ دیں۔‘‘
بورڈ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ وقف قانون میں مرکزی حکومت کے ذریعہ من مانی ، متنازع، دستوری حقوق سے متصادم، امتیاز و تفریق اور فرقہ واریت پر مبنی ترمیمات نے مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کر دیا ہے، جس کا اظہار ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج و مظاہروں کی شکل میں ہو رہا ہے۔ بورڈ کے مطابق ’’ہم ذمہ داران بورڈ مسلمانوں بالخصوص ہماری نئی نسل کے ان جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جوش کے ساتھ ہوش کا دامن نہ چھوڑیں۔ وہ بورڈ یا کسی ذمہ دار جماعت کے تحت ہی کوئی سرگرمی انجام دیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نےمسلمانوں کے جان ومال کو اولین ترجیح دیتے ہوئے صلاح دی ہے کہ ’’جن ریاستوں اور شہروں کے حالات سازگار نہ ہوں وہاں کوئی ریلی اور جلوس نہ نکالیں۔‘‘ بورڈ کے علاوہ سابق وزیر مالیات یشونت سنہا اور دیگر انصاف پسند شخصیات نے بھی متنبہ کیا ہے کہ احتجاج میں تشدد بی جےپی کے جال میں پھنسنے کے مترادف ہے۔