نئی دہلی، 25/مارچ (ایس او نیوز /ایجنسی)سپریم کورٹ کے جج یشونت ورما کے دہلی میں واقع سرکاری رہائش گاہ سے آگ بجھانے کی کارروائی کے دوران بڑی مقدار میں نقدی برآمد ہونے کے بعد انہیں الہ آباد ہائی کورٹ منتقل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ تاہم، اس تبادلے کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ کالجیم نے 20 اور 24 مارچ کو ہوئی میٹنگ میں جج ورما کو الہ آباد ہائی کورٹ بھیجنے کی تجویز دی، جہاں وہ پہلے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یہ فیصلہ ان کے گھر پر بڑی مقدار میں نقدی ملنے اور جلے ہوئے نوٹوں کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لیا گیا۔ تاہم، الہ آباد بار ایسوسی ایشن نے اس تبادلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کوئی ’کچرا گھر‘ نہیں ہے جہاں کرپشن کے الزامات میں ملوث جج کو منتقل کر دیا جائے۔
بار ایسوسی ایشن نے جج ورما کے خلاف سی بی آئی اور ای ڈی جانچ کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بار کے صدر انیل تیواری نے کہا، ’’ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ الہ آباد ہائی کورٹ کو ڈمپنگ گراؤنڈ بنانا چاہتی ہے لیکن ہم ایسا ہرگز ہونے نہیں دیں گے۔‘‘
اس معاملے میں جج ورما نے کہا ہے کہ وہ آگ لگنے کے وقت دہلی میں موجود نہیں تھے۔ ان کے مطابق، جب ان کی بیٹی اور پرائیویٹ سیکریٹری نے فائر بریگیڈ کو اطلاع دی تو سبھی کو حفاظتی وجوہات کی بنا پر دور رکھا گیا تھا اور بعد میں کسی نے بھی نقدی نہیں دیکھی۔
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے نے اس معاملے میں جج ورما کے گزشتہ 6 ماہ کے کال ریکارڈ اور ان کے گھر پر تعینات سیکورٹی گارڈز کا ڈیٹا طلب کیا ہے۔ تحقیقات جاری ہیں، جبکہ بار ایسوسی ایشن اس معاملے میں جج ورما کو حراست میں لینے کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔