نئی دہلی 9/مارچ (ایس او نیوز) دہلی کی ایک عدالت نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (JNU) کے پی ایچ ڈی اسکالر اور سی اے اے مخالف کارکن شرجیل امام اور 11 دیگر افراد پر جامعہ نگر میں 2019 میں ہوئے احتجاج کے سلسلے میں فرد جرم عائد کر دی ہے۔
یاد رہے کہ 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے خلاف ایک پرامن احتجاج نکالا تھا۔ جیسے ہی طلبہ نے مارچ کا آغاز کیا، پولیس نے انہیں روک کر طاقت کا استعمال کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے۔ اس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔ اسی روز دہلی پولیس نے جامعہ کیمپس میں داخل ہو کر آنسو گیس کے شیل داغے، جس سے کئی طلبہ زخمی ہو گئے۔
اسی معاملے میں دہلی کے ساکیت ایڈیشنل سیشن کورٹ نے جمعہ کے روز 11 ملزمین پر فرد جرم عائد کیا، جبکہ 15 افراد کو کیس میں بری کر دیا گیا۔
عدالت نے اس کیس میں اسلحہ ایکٹ کی دفعات 25/27 کے تحت الزامات عائد نہیں کیے، لیکن شرجیل امام پر تعزیرات ہند (IPC) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جن میں:
دفعہ 109 (اعانت جرم)
دفعہ 120B (مجرمانہ سازش)
دفعہ 153A (مذہبی منافرت کو فروغ دینا)
دفعہ 143/147/148/149 (ہنگامہ آرائی)
دفعہ 186 (سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنا)
دفعہ 353 (سرکاری ملازم پر حملہ)
اور دیگر دفعات شامل ہیں، جو تشدد اور املاک کو نقصان پہنچانے سے متعلق ہیں۔
مزید برآں، شرجیل امام پر پبلک پراپرٹی ڈیمیج پریونشن ایکٹ کے تحت بھی الزامات عائد کیے گئے۔
ایڈیشنل سیشن جج وشنل سنگھ نے اپنے بیان میں کہا:
“شرجیل امام کا مؤقف ہے کہ وہ نہ تو 15 دسمبر 2019 کو ہونے والے ہنگامے میں شامل تھے اور نہ ہی انہوں نے کسی کو تشدد پر اکسانے کے لیے تقریر کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تقریر میں کسی بھی مذہب، نسل، ذات، یا برادری کے خلاف نفرت پھیلانے کا کوئی عنصر نہیں تھا، اس لیے ان پر دفعہ 153A کا اطلاق نہیں ہوتا۔”
تاہم، عدالت نے کہا کہ چونکہ امام کی تقریر نے "مسلمان کمیونٹی کو اکسایا"، اس لیے وہ تشدد کے لیے براہ راست ذمہ دار ہیں۔
“شرجیل امام نے چالاکی سے اپنی تقریر میں دیگر برادریوں کا ذکر نہیں کیا، لیکن ان کی تقریر کا اثر یہی تھا کہ دیگر برادریوں کے خلاف احتجاج ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو وہ صرف مسلمان کمیونٹی کے لوگوں کو سڑکوں پر نکلنے اور چکہ جام کرنے کے لیے کیوں کہتے؟”
عدالت نے مزید کہا کہ "شرجیل امام نے اپنی تقریر سے ایک مخصوص کمیونٹی میں نفرت اور غصے کے جذبات پیدا کیے اور اس کی وجہ سے نہ صرف دہلی بلکہ شمالی بھارت کے کئی ریاستوں میں تشدد بھڑکانے کی کوشش کی۔"
“یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سڑکوں پر ہونے والے فسادات کا تعلق شرجیل امام کی تقریر سے نہیں تھا۔ ان کا خطاب براہ راست ہجوم کو تشدد پر اکسانے کے لیے تھا۔”
عدالت نے یہ بھی کہا کہ شرجیل امام نے “ہنر مندی سے اپنی تقریر کو اس انداز میں پیش کیا کہ اس میں کسی اور کمیونٹی کا براہ راست ذکر نہ ہو، لیکن اس کے باوجود اس تقریر کے نتائج تشدد کی شکل میں نکلے۔”
عدالت نے آشو خان، چندن کمار، اور آصف اقبال تنہا پر بھی دفعہ 109 IPC اور پبلک پراپرٹی ڈیمیج پریونشن ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کیا۔
آصف اقبال تنہا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ اپنے وکیل سے مشورہ کر رہے ہیں اور اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔
عدالت نے کہا کہ آصف اقبال تنہا FIR نمبر 242/2019 (State vs. Anal Hussain & Ors.) میں نامزد ہیں اور وہ پرتشدد ہجوم کے رہنماؤں میں شامل تھے۔ ان کے موبائل کے سی ڈی آر اور لوکیشن ڈیٹا سے بھی ان کی موجودگی کی تصدیق ہوتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ: “آشو خان، چندن کمار اور آصف اقبال تنہا نے پہلے سے سازش کے تحت عوام کو تشدد پر اکسایا، اس لیے ان پر دفعہ 109 IPC کا اطلاق درست ہے۔”
بری کیے جانے والے افراد
عدالت نے محمد عادل، روحل امین، محمد جمال، محمد عمر، محمد شاہیل اور دیگر کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری کر دیا۔
چکہ جام پر عدالت نے کہا کہ چکہ جام (سڑک بند کرنے) کو پرامن احتجاج ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا: “چکہ جام سے عام شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ چاہے ہجوم تشدد میں ملوث نہ ہو، پھر بھی یہ ایک طبقے کا دوسرے طبقے پر جبر سمجھا جائے گا۔ چکہ جام سے ایمبولینس بھی رک جاتی ہیں، اور یہاں تک کہ مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے۔”
شرجیل امام کے خلاف دہلی دنگا کیس میں اشتعال انگیز تقریر دینے کے الزام میں UAPA کے تحت بھی مقدمہ چل رہا ہے۔ اس سے پہلے، سپریم کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی کیونکہ ان کی درخواست دہلی ہائی کورٹ میں زیر التوا تھی۔
شرجیل امام نے کہا تھا کہ انہوں نے 2022 میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کی تھی، لیکن اسے 64 بار ملتوی کیا گیا۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ شرجیل امام دہلی ہائی کورٹ سے جلد سماعت کے لیے درخواست کر سکتے ہیں اور عدالت اس پر فیصلہ کرے گی۔