ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / اتراکھنڈ میں مدارس کے معاملات میں سرکاری مداخلت پر اعتراض، جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا

اتراکھنڈ میں مدارس کے معاملات میں سرکاری مداخلت پر اعتراض، جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا

Tue, 25 Mar 2025 16:07:54    S O News

نئی دہلی، 25/مارچ (ایس او نیوز /ایجنسی) اتراکھنڈ حکومت نے حالیہ دنوں میں قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (این سی پی سی آر) کی سفارشات کی بنیاد پر مدرسوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے، جس کے خلاف جمعیۃ علمائے ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ اس معاملے میں منگل، 25 مارچ کو سپریم کورٹ میں سماعت متوقع ہے۔ این سی پی سی آر نے مرکز اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ ان مدارس کو بند کرایا جائے جو مبینہ طور پر حق تعلیم ایکٹ کے دائرے میں نہیں آتے۔ اس حوالے سے کمیشن نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ مدارس میں بچوں کو مناسب تعلیم فراہم نہیں کی جا رہی، جو ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مزید یہ کہ کمیشن نے مدارس کے تعلیمی معیار، صحت مند ماحول اور بچوں کی ترقی کے مواقع کی عدم دستیابی پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

واضح ہو کہ اترپردیش میں مدارس کو جو نوٹس جاری کیے گئے تھے ان میں حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے دلیل دی گئی کہ مفت اور لازمی تعلیم کے حق کے قانون 2009 کے تحت اگر مدارس تسلیم شدہ نہیں ہے تو اسے بند کیا جائے اور طالب علموں کو قریبی سرکاری اسکولوں میں داخل کرا دیا جائے۔ اس کے بعد ہی حکومتی افسران نے اتراکھنڈ میں بڑے پیمانے پر مدارس کے خلاف پھر کارروائی شروع کر دی ہے۔ اب تک اس کارروائی میں کسی پیشگی اطلاع کے بہت سارے مدارس کو زبردستی بند کر دیا گیا حالانکہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ جب اترپردیش میں اس طرح کی کارروائی کی گئی تھی تو جمعیت علمائے ہند نے اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں ایک اہم عرضی داخل کی، جس کا نمبر ڈبلیو پی (سی) 000660/2024 ہے جو 4 اکتوبر 2024 کو داخل کی گئی تھی، جس میں ان تمام دعووں کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت میں جسٹس جے پی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل ایک بنچ نے ان تمام نوٹس پر روک لگا دی جو مختلف ریاستوں بالخصوص اترپردیش حکومت کے ذریعہ مدرسوں کو جاری کیے گئے تھے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ عدالت کے ذریعہ اگلا نوٹس جاری ہونے تک کی مدت کے دوران، اس سلسلے میں اگر کوئی نوٹس یا حکم مرکز یا ریاستوں کی جانب سے جاری ہوتا ہے تو اس پر بھی قانون کے مطابق پابندی جاری رہے گا۔

اس لیے اتراکھنڈ میں مدارس کے خلاف اس غیر آئینی کارروائی پر آج (24مارچ) کو جمعیت علمائے ہند مولانا ارشد مدنی کے حکم پر سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے۔ جس میں اتراکھنڈ میں مکاتب و مدارس جو صرف مسلم طبقہ کے بچوں کو مذہبی تعلیم دینے کا ذریعہ ہے، کے کام میں غیرضروری مداخلت اور انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ علاوہ ازیں عرضی میں کہا گیا ہے کہ ہمارے مدارس و مکاتب جو مکمل طور سے غیر امدادی اقلیتی مذہبی تعلیمی ادارے ہیں، طویل عرصے سے بغیر کسی حکومتی مداخلت کے چلا رہے ہیں۔ لیکن اچانک یکم مارچ 2025 سے اب تک حکومتی افسران مدارس میں آ رہے ہیں اور ہم سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں یہ مدارس و مکاتب بند کرنے ہوں گے۔ جب ہم نے ان سے کسی نوٹس یا کسی حکومتی حکم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ہمیں کچھ بھی فراہم نہیں کیا۔ صرف زبانی طور پر کہا کہ اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ دہرادون سے غیر تسلیم شدہ مدارس کو مذہبی تعلیم دینے کی اجازت نہیں ہے، اس کے بعد انہوں نے ہمارے مدارس کو سیل کر دیا۔

عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیرتسلیم شدہ ہونے کا صرف یہ مطلب ہے کہ ہم نے اپنے مکاتب و مدارس کو اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورد دہرادون سے رجسٹریشن نہیں کرایا۔ ہم نے اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2016 کا جائزہ لیا ہے، اس میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ غیر تسلیم شدہ مکاتب و مدارس کو اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم دینے کی اجازت نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس قانون کے تحت مدارس و مکاتب کا رجسٹریشن ضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ طالب علموں کے والدین اور سرپرست بھی اس غیر آئینی مداخلت سے پریشان ہیں کیونکہ ان کے بچوں کو ان کی خواہش کے مطابق مذہبی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے جو کہ ان کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

علاوہ ازیں عرضی میں عدالت سے یہ گزارش کی گئی ہے کہ ہندوستانی آئین کی دفعات اور سپریم کورٹ کے 21 اکتوبر 2024 کے حکم کی روشنی میں براہ کرم ان مکاتب و مدارس کو دوبارہ کھولنے کا حکم انتظامیہ کو دیں۔ ساتھ ہی انتظامیہ کو یہ بھی حکم دیں کے وہ مکاتب و مدارس کے کام میں مداخلت نہ کریں، کیونکہ متعلقہ سرکاری افسران کا یہ عمل توہین عدالت کے مترادف ہے، یہ انصاف کے مقاصد کی مسلسل خلاف ورزی ہے اور قانون کی حکمرانی کے منافی ہے۔ واضح ہو کہ یہ عرضی ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی نے سپریم کورٹ میں داخل کی ہے۔


Share: