ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / دہلی عدالت کا فیصلہ: 2020ء نفرت انگیز تقریر کیس میں کپل مشرا کی درخواست خارج

دہلی عدالت کا فیصلہ: 2020ء نفرت انگیز تقریر کیس میں کپل مشرا کی درخواست خارج

Sun, 09 Mar 2025 10:32:44    S O News

نئی دہلی، 9/مارچ (ایس او نیوز /ایجنسی)دہلی ہائی کورٹ نے بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی وہ عرضی مسترد کر دی، جس میں انہوں نے مجسٹریٹ کے اس حکم کو چیلنج کیا تھا، جس کے تحت 2020ء میں ان کے ٹویٹس پر درج ایف آئی آر کے سلسلے میں انہیں سمن جاری کیا گیا تھا۔ اپنے متنازع ٹویٹ میں مشرا نے الزام لگایا تھا کہ عام آدمی پارٹی (آپ) اور کانگریس نے شاہین باغ کو ’’چھوٹا پاکستان‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے اور دہلی اسمبلی انتخابات ’’پاکستان اور ہندوستان‘‘ کے درمیان مقابلہ ہوں گے۔ اس معاملے پر دہلی کے روس ایونیو کورٹ کے خصوصی جج جتیندر سنگھ نے مشرا کے بیان کو فرقہ وارانہ تقسیم کی سیاست سے جوڑتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انتخابی فائدے کے لیے لفظ ’’پاکستان‘‘ کو چالاکی سے نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یاد رہے کہ آفس آف دی ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے ضابطہ اخلاق اور ریپریزنٹیشن آف دی پیپل ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزامات کے بعد کپل مشرا کے خلاف یہ ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

مشرا نے مبینہ طور پر طبقات کے درمیان نفرت پھیلانے کیلئے دہلی کے قانون ساز اسمبلی الیکشن ۲۰۲۰ء سے متعلقہ ٹویٹ کیا تھا۔جج نے یہ کہا کہ ’’ہندوستان میں انتخابات کے درمیان ووٹ حاصل کرنے کیلئے فرقہ وارانہ تقاریر کرنا ٹرینڈ بن گیا ہے۔‘‘عدالت نے نشاندہی کی ہے کہ ’’یہ تقسیم کی سیاست کا نتیجہ ہے جس نے ملک کی جمہوریت اور اتحاد کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ استعماریت کی ’’تقسیم اور اقتدار‘‘ کی پالیسی کو آج بھی ہندوستان میں اپنایا جارہا ہے۔‘‘مشرانےدلیل پیش کی ہے کہ ان کا بیان کسی مخصوص ذات، مذہب، نسل یا زبان کیلئے نہیں تھا جبکہ اس میں ایک ایسے ملک کا ذکر کیا گیا ہے جو آر پی ایکٹ کے سیکشن ۱۲۵؍ کے تحت ممنوع نہیں ہے۔‘‘

تاہم، عدالت نے کہا کہ ’’اس مبینہ بیان میں کسی مخصوص ’’ملک‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے جس کا مقصد ’’کسی مخصوص مذہبی طبقے‘‘ کے افراد کو واضح طور پرنقصان پہنچانے کے مترادف ہے اور اس کا مقصد ’’مذہبی طبقات‘‘ کے درمیان دشمنی پھیلانا ہے۔یہ بات کوئی اناڑی بھی سمجھ سکتا ہے۔‘‘عدالت نے کہا کہ ’’مشرا کےبیان میں بلاواسطہ کسی مخصوص ’’ملک‘‘ کا حوالہ دے کر مذہبی بنیادوں پر دشمنی کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے جسے بدقسمتی سے اکثر کسی ایک مذہب کے افراد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ عدالت نے درخواست کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹرائل کورٹ سے متفق ہے کہ ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے داخل کی گئی شکایت، الیکشن کمیشن کی نوٹی فکیشن اور دیگر کاغذات آ رپی ایکٹ کے سیکشن ۱۲۵؍کے تحت کئےگئے جرم کا نوٹس لینے کیلئے کافی ہیں۔‘‘عدالت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’یہ الیکشن کمیشن (ای سی) کی ذمہ داری ہے کہ وہ امیدواروں کو فرقہ ورانہ کشیدگی پھیلانے سے باز رکھے اور شفاف اور آزادانہ انتخابات کا ماحول بنائے۔‘‘

جنوری میں مشرا نے دہلی کے اسمبلی انتخابات کا موازنہ ’’ہندوستانی بمقابلہ پاکستان‘‘ مقابلے سے کیا تھا جس کیلئے الیکشن کمیشن نے ۴۸؍گھنٹے کیلئے ان کی الیکشن مہم پر پابندی عائد کی تھی۔ کپل مشرا، جو نفرت پھیلانے کیلئے جانے جاتے ہیں، پر فروری۲۰۲۰ء کے دہلی کے قتل عام کے دوران نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے تشدد کو ہوا دینے کا الزام بھی ہے۔ ۲۳؍فروری ۲۰۲۰ء کو تشددپھوٹنے سے قبل مشرانے شمال مشرقی دہلی کے موجپورکے قریب ڈپٹی کمشنر آف پولیس وید پرکاش سوریہ کی موجودگی میں خطاب کیا تھا۔اپنی تقریر میں انہوں نے الٹم میٹم دیا تھا کہ پولیس جعفر آباد میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو ہٹائے۔

انہوں نے متنبہ کیا تھا  کہ اگر پولیس یہ کرنے میں ناکامیاب ہوتی ہے تو ان کے حامی اس معاملےکو اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ان کی تقریر کے فوراً بعد ہی تشدد پھوٹ پڑا تھا جس کے نتیجے میں ۵۳؍افرادنے اپنی جانیں گنوائی تھیں جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ لوگوں کے جانوں کے ضیاع کے علاوہ کئی گھر،دکانیں اور عبادتگاہیں تباہ ہوگئی تھیں۔بعد ازیں بی جے پی نے مشرا کو دہلی کے اسمبلی انتخابات کیلئے ٹکٹ بھی دیا تھا اور وہ شمال مشرقی دہلی کی کاراوال نگرسیٹ سے کامیاب بھی ہوئے تھے۔


Share: