ممبئی، 5/اپریل (ایس او نیوز /ایجنسی)وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے، اور اب یہ معاملہ عدلیہ کے دروازے تک پہنچنے والا ہے۔ مختلف اپوزیشن جماعتوں اور اقلیتی نمائندہ اداروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس ’غیر آئینی‘ قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔ کانگریس، آر جے ڈی، اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی، اور پارٹی لیڈر محمد جاوید نے کھلے عام اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تمل ناڈو کی حکومت اور ڈی ایم کے نے پہلے ہی قانونی کارروائی کا عندیہ دے دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جمعیۃ علماء ہند، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر دینی و سماجی ادارے بھی عدالت سے رجوع کی تیاری میں مصروف ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف مذہبی آزادی پر حملہ ہے بلکہ آئینی اقدار کے برخلاف ہے۔
اس تعلق سے میںکانگریس نے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کو بزور طاقت منظور کرائےجانے کے خلاف سخت احتجاج کے بعد اب اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی نے کہا کہ جس طرح اس نے شہریت ترمیمی قانون، عبادت گاہ قانون اور دیگرمعاملوں پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہےاسی طرح وہ وقف ترامیم کے خلاف بھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے پوسٹ کیا کہ ’’شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف کانگریس پارٹی کے چیلنج پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔حق اطلاعات قانون ۲۰۰۵ء میں ترامیم کےخلاف بھی پارٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس پر سماعت میں جاری ہے۔عبادت گاہوںکے تحفظ ایکٹ کی روح اور دفعات کے تحفظ کے لئے بھی کانگریس کی مداخلت کی عرضی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔‘‘ انہوںنےمزید کہاکہ اسی طرح کانگریس وقف ترمیمی بل کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لئے بہت جلد سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم آئین ہند میں درج اصولوں، دفعات اور روایات پر مودی حکومت کے ہر حملے کی سختی سے مخالفت کرتے رہیں گے۔‘‘
جے رام رمیش نےمزیدکہا کہ راجیہ سبھا میں بل کے حق میں۱۲۸؍ اور مخالفت میں ۹۵؍ووٹ ڈالے گئے۔ایوان میں بی جے پی کی بل کی منظوری کافی کم ووٹوں سے ہوئی۔ دراصل یہ راجیہ سبھا میں حکمراں پارٹی کیلئے جھٹکا تھا۔حکمراں جماعت کویہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اپوزیشن نے اتنی مضبوط تعداد اکٹھا کر لی ہے۔ اگر بیجو جنتا دل آخری وقت میں بی جے پی کے دباؤ کے سامنے نہ جھکتی تو یہ تعداد۹۵؍ سے زیادہ ہوتی۔
دریں اثناء کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ محمد جاوید اور مجلس کے سربراہ اسدالدین اویسی نےبھی سپریم کورٹ میں ان ترامیم کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔دونوںلیڈروں کی عرضیوں میں کہاگیا ہےکہ وقف میں موجودہ ترامیم مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔مسلمانوںکے اداروں پرحکومت قبضہ کرنا چاہتی ہے۔یہ عرضی ایڈوکیٹ انس تنویرکے ذریعہ دائر کی گئی ہے ۔حالانکہ ابھی تک صدر جمہوریہ نے اس بل پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ جب تک یہ باقاعدہ قانون نہیں بن جاتا تب تک اسے کورٹ میںچیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اس بل کیخلاف شدید ناراضگی کو دیکھتے ہوئےمسلم اور سیکولر فریقوں نے پہلے سے ہی تیاری کرلی ہے۔ دریں اثناءجموںکشمیر اسمبلی نے اس بل کیخلاف ۲؍قراردادوں کو منظوری دیتے ہوئے اس بل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔