نئی دہلی،24/مارچ (ایس او نیوز / پی ٹی آئی)راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے ہندوستان کے عدالتی نظام پر عوام کے گھٹتے ہوئے اعتماد پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کا عدلیہ پر بھروسہ مسلسل کم ہو رہا ہے، جو جمہوری نظام کے لیے ایک خطرناک اشارہ ہے۔ سبل نے زور دے کر کہا کہ جب تک حکومت اور عدلیہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ججوں کی تقرری سمیت موجودہ نظام مؤثر طریقے سے کام نہیں کر رہا، تب تک کسی متبادل حل کی تلاش ممکن نہیں۔ایک انٹرویو کے دوران سبل نے بدعنوانی ، عدالتی بے عملی اور ججوں کے ذریعہ اکثریتی نقطہ نظر کو اپنانے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ضلعی اور سیشن عدالتوں میں زیادہ تر مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی جاتی ہیں، جو عدالتی نظام میں گہری خامیوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے اعلیٰ عدلیہ میں بدعنوانی پر قابو پانے کے مؤثر طریقہ کار کی عدم موجودگی پر بھی سخت تنقید کی۔
سبل کے مطابق، اگرچہ ججوں کے خلاف مواخذے کا عمل موجود ہے، لیکن یہ اکثر پیچیدگیوں کا شکار ہو کر رک جاتا ہے، جس کے باعث عوام کو انصاف کے لیے کوئی مؤثر راستہ نہیں ملتا۔ انہوں نے گزشتہ سال الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو کے متنازع بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
عدالتی نظام کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے، سبل نے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے عدلیہ میں کرپشن پر تحفظات موجود ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ بدعنوانی کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں، جیسے کسی مالی فائدے کے بدلے فیصلہ دینا یا عہدے کے حلف کے خلاف کام کرنا۔ ان کے مطابق، ایک جج کا فرض ہے کہ وہ کسی خوف یا حمایت کے بغیر فیصلے کرے، لیکن اگر وہ سیاسی نظریات یا ذاتی وابستگی کی بنیاد پر فیصلے دیتا ہے، تو یہ نظام میں خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔
سبل نے مزید کہا کہ اب کچھ جج کھل کر اکثریتی نظریے کی حمایت کر رہے ہیں اور سیاسی مؤقف اپنا رہے ہیں۔ انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ مغربی بنگال میں ایک جج پہلے ایک مخصوص سیاسی جماعت کے خیالات کی حمایت کرتے رہے، بعد میں استعفیٰ دے کر اسی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے ایک اور جج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ایک جج نے کھل کر کہا کہ وہ آر ایس ایس سے وابستہ ہیں، جو عدلیہ کی غیر جانبداری کے اصول کے خلاف ہے۔"
راجیہ سبھا کے رکن نے جسٹس شیکھر کمار یادو کے اس متنازع بیان پر بھی اعتراض کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ "ہندوستان میں اکثریتی کلچر ہی رہنا چاہیے، اور صرف ایک ہندو ہی ملک کو عالمی لیڈر بنا سکتا ہے۔" سبل نے کہا کہ "بطور جج، انہیں اقلیتوں کے لیے ایسے توہین آمیز الفاظ نہیں استعمال کرنے چاہیے تھے، کیونکہ عدلیہ کا کام سب کے ساتھ مساوی انصاف فراہم کرنا ہے۔"
دوسری جانب، عام آدمی پارٹی کے لیڈر سنجے سنگھ نے بھی عدلیہ کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ "جج کے گھر پر نوٹوں کے بنڈل نہیں، بلکہ عدلیہ کا بھروسہ جلا ہے۔"