نئی دہلی، 27 /فروری (ایس او نیوز /ایجنسی)مرکزی کابینہ نے وقف ترمیمی بل کی منظوری دے دی ہے، جسے 10 مارچ سے شروع ہونے والے بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے میں پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ مرحلہ 10 مارچ سے 4 اپریل تک جاری رہے گا، اور اسی دوران حکومت اس بل کو بحث کے لیے پیش کر سکتی ہے۔ تاہم، حزب اختلاف کی جماعتوں، مذہبی رہنماؤں اور ماہرین کی جانب سے اس بل پر سخت اعتراضات اور مخالفت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
بل وقف جائیدادوں کے تحفظ اور انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ حکومت کے مطابق، اس بل میں وقف قوانین میں ضروری ترامیم کی گئی ہیں تاکہ وقف املاک کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور ان کے استعمال کو شفاف بنایا جا سکے۔
اس سے قبل 13 فروری کو پارلیمانی کمیٹی نے وقف بل پر اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی تھی۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر بل کے نئے مسودے کو تیار کیا گیا، جسے اب کابینہ کی منظوری حاصل ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق، حکومت چاہتی ہے کہ بجٹ اجلاس کے دوسرے حصے میں اسے لوک سبھا میں پیش کیا جائے اور اس کے بعد راجیہ سبھا میں منظوری کے لیے بھیجا جائے۔
بل کے تحت وقف املاک سے متعلق معاملات میں شفافیت بڑھانے اور بے ضابطگیوں کو کم کرنے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، ریاستی وقف بورڈز کی ذمہ داریوں کو مزید واضح کیا گیا ہے اور ان کے دائرہ کار کو مضبوط بنایا گیا ہے تاکہ وقف املاک کی صحیح دیکھ بھال اور ترقی ممکن ہو سکے۔
ذرائع کے مطابق، حکومت اس بل کو جلد از جلد قانون کی شکل دینا چاہتی ہے تاکہ وقف املاک کو غیر قانونی قبضے سے بچایا جا سکے اور انہیں کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے مؤثر انداز میں استعمال کیا جا سکے۔ تاہم، حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے اس بل پر ممکنہ اعتراضات بھی سامنے آ سکتے ہیں اور اس پر پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث ہونے کا امکان ہے۔
حزب اختلاف، مسلمانوں، علمائے کرام اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے مجوزہ وقف ترمیمی بل کی شدید مخالفت کی ہے۔ ان کے مطابق یہ بل نہ صرف آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی میں مداخلت کے مترادف ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اس بل کو وقف املاک پر قبضے کی سازش قرار دیتے ہوئے حکومت سے اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی اس بل کو غیر آئینی اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مسلمانوں کو ان کی وقف شدہ جائیدادوں سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ ان تنظیموں نے مشترکہ طور پر قانونی چارہ جوئی، سیاسی جماعتوں سے رابطے اور عوامی بیداری مہم جیسے اقدامات کے ذریعے اس بل کی مخالفت کی حکمت عملی اپنائی ہے۔
اس سلسلے میں جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے اراکین سے بھی ملاقاتیں کی گئیں تاکہ بل کی خامیوں کو اجاگر کیا جا سکے اور اسے واپس لینے پر زور دیا جا سکے۔ وہیں، جے پی سی کے اجلاسوں کے دوران حزب اختلاف نے بھی اس بل کی شدید مخالفت کی تھی اور حزب اقتدار کے ارکان کے ساتھ کئی مرتبہ ان کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔ تاہم اب اس بل کو کابینہ نے منظور کر لیا ہے اور دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ میں اس بل پر کیا فیصلہ لیا جاتا ہے۔