
نئی دہلی، 23 مارچ 2025 (ایس او نیوز) ملک بھر میں وقف (ترمیمی) بل 2024 کے خلاف مسلمانوں اور اپوزیشن جماعتوں کی شدید مخالفت کے باوجود مرکزی حکومت اسے اگلے ہفتے لوک سبھا میں پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس بل کے پیش ہونے سے پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک نئی اور شدید محاذ آرائی کا امکان ہے، کیونکہ مسلم تنظیمیں اور اپوزیشن رہنما اسے "مسلمانوں کے مذہبی حقوق اور وقف املاک کی خودمختاری پر حملہ" قرار دے رہے ہیں۔
دہلی کے جنتر منتر پر حالیہ احتجاجی مظاہروں کے علاوہ، ملک کے مختلف شہروں میں اس بل کے خلاف احتجاج جاری ہے، لیکن حکومت اسے "وقف نظام میں اصلاحات" کا نام دے کر آگے بڑھنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے۔
مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو نے اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ "وقف بورڈز پر مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے، اور یہ بل عام لوگوں، خاص طور پر مسلم خواتین، غریبوں اور بچوں کے مفاد میں لایا گیا ہے۔" انہوں نے دعویٰ کیا کہ وقف املاک کا انتظام شفاف بنانے اور کمپیوٹرائزیشن کے ذریعے اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس بل کا مقصد وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم کر کے املاک کے رجسٹریشن کے لیے ایک مرکزی پورٹل قائم کرنا اور غیر قانونی قبضوں سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ رجیجو نے مزید کہا کہ "ہم نے مختلف مسلم فرقوں سے مشاورت کی، اور ان کی سفارشات پر یہ بل تیار کیا گیا ہے۔" تاہم، مسلم تنظیموں نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان سے کوئی رائے نہیں لی گئی۔
آ ل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) نے اس بل کو "وقف املاک کو ہڑپنے کی سوچی سمجھی سازش" قرار دیا ہے۔ بورڈ کے مطابق، یہ بل آئین ہند کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو مذہبی امور میں خودمختاری کی ضمانت دیتا ہے۔ مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وقف ایک شرعی معاملہ ہے، جو اللہ کی ملکیت میں ہوتا ہے، اور اس میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت یا سرکاری کنٹرول ناقابل قبول ہے۔ بل میں ضلع کلکٹر کو وقف املاک کی تحقیقات کا اختیار دینے اور "وقف بائی یوزر" کے ضابطے میں ترمیم سے مسلم برادری کو خدشہ ہے کہ تاریخی مساجد، قبرستانوں اور دیگر املاک کو سرکاری زمین قرار دے کر ضبط کیا جا سکتا ہے۔ AIMPLB نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ اس بل کے خلاف قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گا۔
کانگریس کے ترجمان جے رام رمیش نے اسے "آئین پر حملہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ "یہ قانون ہمارے کثیرالمذہبی معاشرے کی سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔" انہوں نے مزید الزام لگایا کہ حکومت وقف کی خودمختاری کو ختم کر کے اسے سرکاری کنٹرول میں لینا چاہتی ہے۔ اسد الدین اویسی (AIMIM) نے اسے "مساجد اور مدارس کو ہڑپنے کا منصوبہ" قرار دیا، جبکہ اکھلیش یادو (سماجوادی پارٹی) اور کے سی وینوگوپال (کانگریس) نے اسے غیر آئینی اور ظالمانہ کہا۔
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی اس بل کے ذریعے فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
X پر حالیہ پوسٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم برادری اور حامیوں میں اس بل کے خلاف غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ AIMPLB نے 22 مارچ 2025 کو ایک پوسٹ میں لکھا: "ہم ہندوستانی مسلمانوں کا یہ احساس ہے کہ وقف ترمیمی بل اوقاف کو ہڑپنے کی سوچی سمجھی تدبیر ہے، جسے کسی بھی صورت قبول نہیں۔" اسی طرح، 17 مارچ کو انہوں نے کہا: "حکومت مسلمانوں کے صبر کا امتحان نہ لے اور اس بل کو واپس لے۔" صارفین نے #RejectWaqfBill کے ساتھ احتجاجی مظاہروں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں، جبکہ کچھ نے حکومت پر "تاناشاہی" اور "فرقہ وارانہ سیاست" کا الزام لگایا۔
ایک صارف نے لکھا: “یہ بل نہ صرف مسلمانوں کے حقوق چھینتا ہے بلکہ ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کو بھی کمزور کرتا ہے۔”
وقف ترمیمی بل پر غو ر کرنے کے لیے بنائی گئی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) نے 27 جنوری 2025 کو این ڈی اے کی 14 ترامیم کے ساتھ اسے منظور کیا تھا، جبکہ اپوزیشن کی 44 ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ اپوزیشن ارکان، بشمول ترنمول کانگریس، سماجوادی پارٹی، اور AIMIM، نے کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال پر آمرانہ رویے اور تعصب کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اختلافی نوٹ درج کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں دیا گیا، اور کمیٹی نے جلد بازی میں رپورٹ تیار کی۔ AIMPLB کے مطابق، کمیٹی نے 5 کروڑ سے زائد ای میلز کے ذریعے عوامی مخالفت کو بھی نظر انداز کیا۔
بتاتے چلیں کہ ا س بل میں وقف ایکٹ 1995 کے نام کو "یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ" میں تبدیل کرنے، وقف بورڈز میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت، اور ضلع کلکٹر کو املاک کی تحقیقات کا اختیار دینے کی تجاویز شامل ہیں۔ مسلم رہنماؤں کا خیال ہے کہ یہ ترامیم وقف کی روایتی خودمختاری کو ختم کر کے اسے سرکاری کنٹرول میں لے آئیں گی، جس سے مساجد، قبرستانوں اور دیگر تاریخی املاک خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
مسلم تنظیمیں، خاص طور پر AIMPLB، نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس بل کے خلاف دہلی اور پٹنہ سمیت بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری رکھیں گی۔ 17 مارچ کو جنتر منتر پر ایک بڑا مظاہرہ ہوچکا ہے، جبکہ بہار کے مسلمانوں سے احتجاج کے لئے پٹنہ میں جمع ہونے کی اپیل کی گئی ہے۔ اپوزیشن نے بھی پارلیمنٹ میں اس کی منظوری روکنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
ایسے میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی پارلیمنٹ میں اس بل روکنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس تنازع کے شدت اختیار کرنے سے سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔