ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / نوپور شرما کی وضاحت: ’میڈیا کی خبروں پر بھروسہ کیا، اسی کو بیان کیا‘

نوپور شرما کی وضاحت: ’میڈیا کی خبروں پر بھروسہ کیا، اسی کو بیان کیا‘

Mon, 21 Oct 2024 17:05:53    S.O. News Service

نئی دہلی، 21/اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی) بی جے پی رہنما نوپور شرما ایک بار پھر تنازع کا شکار ہو گئی ہیں۔ انہوں نے بہرائچ تشدد میں ہلاک ہونے والے رام گوپال مشرا کی موت کے بارے میں عوامی جلسے میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ رام گوپال کو بربریت سے قتل کیا گیا تھا، 35 گولیاں ماری گئی تھیں اور ان کے ناخن تک اکھاڑ دیے گئے تھے۔ تاہم، تنازع بڑھتا دیکھ کر نوپور شرما نے معافی مانگ لی اور وضاحت پیش کی کہ انہوں نے میڈیا میں جو سنا اور دیکھا، اسی کو بیان کیا تھا۔

نوپور شرما نے بلند شہر میں منعقد برہمن سبھا کو خطاب کرتے ہوئے بہرائچ تشدد کا ذکر کرتے یوئے متنازع باتیں کہی تھیں۔ انہوں نے اس معاملے پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی کارروائی کی بھی حمایت کی تھی۔ حالانکہ معاملے کو طول پکڑتا دیکھ کر انہوں نے اپنے بیان پر پلٹی مارتے ہوئے معافی مانگ لی ہے۔ نوپور شرما نے 'ایکس' پر لکھا "آنجہانی رام گوپال مشر جی کے بارے میں جو میں نے میڈیا میں سنا تھا وہ دہرا دیا، مجھے پوسٹ مارٹم رپورٹ کی وضاحت کے بارے میں علم نہیں تھا۔ میں اپنے الفاظ واپس لیتی ہوں اور معافی مانگتی ہوں۔"

بی جے پی رہنما نے رام گوپال مشرا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو لے کر کہا تھا کہ کیا 35 گولیاں مار دینا ٹھیک ہے، ناخن اکھاڑ دیے، کیا ہمارے ملک کا قانون اس طرح کے قتل کی اجازت دیتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یوپی حکومت نے سبھی قدم اٹھائے ہیں۔ نپور شرما نے یہ بات جب کہی تو اس وقت اسٹیج پر ہماچل پردیش کے گورنر شیو پرتاپ شکل اور راجستھان کے سابق گورنر کلراج مشرا بھی موجود تھے۔

قابل زکر ہے کہ بہرائچ تشدد کے بعد رام گوپال مشرا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو لے کر سوشل میڈیا پر اس طرح کے دعوے کیے گئے تھے کہ اسے مارنے سے پہلے بہت اذیت دی گئی تھی۔ حالانکہ بہرائچ پولیس نے انہیں غلط بتاتے ہوئے اس کی تردید کرتے ہوئے افواہ نہیں پھیلانے کی اپیل کی تھی۔ پولیس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ رام گوپال کی موت گولی لگنے سے ہوئی۔ اس کی دیگر اور کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس لیے سبھی سے گزارش ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھیں۔


Share: