کابل23جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)سربیا میں موجود سینکڑوں پاکستانی اور افغان مہاجرین نے بھوک ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے ہنگری کی سرحد کی طرف مارچ شروع کر دیاہے۔ ان لوگوں کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح یورپی یونین میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجائیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بلغراد سے آمدہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ تقریباََتین سومہاجرین اورتارکین وطن افرادنے احتجاج کرتے ہوئے ہنگری کی سرحد کی طرف مارچ شروع کیا تو پولیس کی نفری بھی وہاں تعینات تھی۔ ان لوگوں میں زیادہ تر پاکستانی اور افغان باشندے شامل ہیں، جو مہاجرت کا طویل سفر طے کرتے ہوئے سربیا پہنچے ہیں۔سربیا کے وزیراعظم الیگزینڈر وُچِچ کا کہنا ہے کہ ملک میں مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے قومی سرحدوں پر پولیس کے ساتھ ساتھ فوج بھی تعینات کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سربیا کو مہاجرین کی پارکنگ نہیں بننے دیا جائے گا۔ہنگری کی طرف سے سرحدوں کو بند کر دیے جانے کے بعد یہ مہاجرین سربیا میں ہی محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ بائیس مارچ کو سخت گرمی کے باوجود ان مہاجرین نے بلغراد سے اپنا احتجاجی مارچ شروع کیا۔ بلغراد سے ہنگری کی سرحدی گزر گاہ دو سو کلو میٹر دو واقع ہے۔مظاہرہ کرنے والے ان مہاجرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر درج تھا، ہم آج مارچ کر کے اور کھانا نہ کھا کر کچھ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک کارڈ پر درج تھا، اگر مہاجرین کو آنے سے روکنا ہے تو جنگیں ختم کر دو ۔افغانستان سے تعلق رکھنے والے باشندے عبدالمالک نے اے ایف پی کو بتایا، ہم ہنگری کی سرحد کی طرف جا رہے ہیں۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ سرحدیں کھول دی جائیں تاکہ وہ یورپی یونین میں داخل ہو سکیں۔چوبیس سالہ مالک نے کہا، آج ہم بھوک ہڑتال پر ہیں۔ ہم کھانا نہیں کھانا چاہتے۔ ہم یہاں کھانے نہیں آئے، ہم بھوکے نہیں ہیں۔ رواں ماہ کے دوران سربیا میں مہاجرین آنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ہنگری کی طرف سے سخت سرحدی کنٹرول کے باعث یہ مہاجرین اب آگے نہیں جا سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعدادوشمار کے مطابق ہنگری کے ساتھ متصل سربیا کی سرحد پر کم ازکم اٹھائیس سو مہاجرین نے عارضی کیمپ لگا رکھے ہیں۔ سربیا کے حکام کے مطابق رواں برس کے دوران ملک میں ایک لاکھ دوہزارمہاجرین اور تارکین وطن رجسٹریشن کرا چکے ہیں۔مالک کے بقول وہ بیس دن تک بلغراد میں رہا، جہاں اسے رہائش نصیب نہ ہو سکی، جس کے بعد اس نے ہنگری کی سرحد کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ مالک کا کہنا تھا، سربیا کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ وہ مہاجرین کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں لیکن ہمیں ہنگری کے ساتھ مسئلہ ہے، جس نے اپنی سرحدبندکررکھی ہے۔مالک نے بتایا کہ اس احتجاجی مارچ میں صرف نوجوان اور کچھ بزرگ لوگ شامل ہوئے ہیں جبکہ خواتین اوربچے شریک نہیں ہوئے۔ مالک کے مطابق گرمی اور طویل سفر کے باعث انہیں بلغراد میں ہی رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔