نیویارک، 13/اپریل (ایس او نیوز /ایجنسی) اقوام متحدہ کی ممتاز ماہر اقتصادیات اور انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر (آئی ٹی سی) کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پامیلا کوک ہیملٹن نے جمعہ کے روز جنیوا میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے نافذ کردہ نئے ٹیرف (محصولات) عالمی تجارتی منظرنامے پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر عالمی تجارت میں 3 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی پیش گوئی کی کہ ان اقدامات کے نتیجے میں برآمدات کے رجحانات میں تبدیلی آئے گی، جہاں امریکہ اور چین جیسے روایتی بازاروں سے توجہ ہٹ کر ہندوستان، برازیل اور کینیڈا جیسے ابھرتے ہوئے ترقی پزیر ممالک کی جانب منتقل ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق یہ تبدیلی ان ممالک کیلئے ایک بڑا موقع بن سکتی ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ایک بڑے ٹیرف پلان کا اعلان کیا تھا۔ اگرچہ بعد میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ زیادہ تر ممالک کیلئے جوابی ٹیرف پر۹۰؍ دن کی پابندی ہوگی، چین نے امریکی درآمدات پر۱۲۵؍ فیصد ٹیرف لگانے کا فیصلہ کیا۔ کوک ہیملٹن نے کہا کہ یہ ٹیرف عالمی تجارت میں طویل مدتی تبدیلیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میکسیکو کی برآمدات جو پہلے امریکہ، چین اور یورپ جیسی منڈیوں پر انحصار کرتی تھیں، اب کنیڈا، برازیل اور کچھ حد تک ہندوستان میں منتقل ہو رہی ہیں۔ ان ممالک کے پاس بڑا موقع ہے۔ اسی طرح ویتنام کی برآمدات بھی امریکہ اور چین سے ہٹ کر مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، یورپ اور کوریا جیسی منڈیوں میں منتقل ہو رہی ہیں۔
کوک ہیملٹن نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ صنعت ترقی پزیر ممالک کیلئے معاشی سرگرمیوں اور روزگار کا بڑا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش، جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گارمنٹ ایکسپورٹر ہے، کو ۳۷؍ فیصد تک جوابی ٹیرف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر یہ ٹیرف نافذ ہوتا ہے تو بنگلہ دیش ۲۰۲۹ء تک امریکہ کو۳ء۳؍ بلین ڈالرس کی برآمدات سے محروم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ترقی پزیر ممالک کو ایسے عالمی چیلنج سے نمٹنے کیلئے تنوع، ویلیو ایڈیشن اور علاقائی انضمام پر توجہ دینی چاہئے۔ اس سے نہ صرف بحران سے بچنے میں مدد ملتی ہے بلکہ مستقبل کیلئے ایک مضبوط بنیاد بھی رکھی جاتی ہے۔
مزید برآں، فرانسیسی اقتصادیات کے تحقیقی ادارے سی ای پی آئی آئی کے تعاون سے کئے گئے ابتدائی تخمینوں کے مطابق، یہ محصولات اور جوابی اقدامات۲۰۴۰ء تک عالمی جی ڈی پی میں ۰ء۷؍ فیصد کمی کر سکتے ہیں۔ میکسیکو، چین، تھائی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی اس کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
چین کے۱۲۵؍ فیصد ٹیرف کے فیصلے پر ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی نائب صدر وینڈی کٹلر نے کہا کہ چین اس تجارتی جنگ میں پیچھے نہیں ہٹے گا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان محصولات - امریکہ کو چینی درآمدات پر ۱۴۵؍ فیصد اور چین کو امریکی درآمدات پر۱۲۵؍ فیصد - دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو مجازی تعطل کا شکار کر سکتے ہیں۔ اسی دوران ماہر ڈینیل رسل نے کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ نہ تو جھک رہے ہیں اور نہ ہی حالات کو خراب کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکی مارکیٹ کے دباؤ میں خود بخود کمزور ہو جائے گی۔