
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر یعنی 3 مارچ کو یوکرین کو دی جانے والی تمام فوجی امداد روکنے کا حکم دیا جس کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونالد ٹرمپ نے یہ واضح پیغام دے دیا کہ ان کی باتوں کو مانیں گے تو ہی وہ ساتھ دیں گے، نہیں مانیں گے وہ وہی کریں گے جو وہ چاہیں گے ۔ یہ حکم یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ اوول آفس میں بحث کے چند دن بعد آیا ہے۔ بلومبرگ نے محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ اہلکار کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکہ یوکرین کے لیے تمام موجودہ فوجی امداد اس وقت تک روک رہا ہے جب تک ٹرمپ اس بات کا تعین نہیں کر لیتے کہ آیا زیلنسکی امن کے لیے نیک نیتی سے عہد کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ اوول آفس میں ہونے والی میٹنگ میں زیلنسکی نے روس کے ساتھ کسی بھی امن معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی کی ضمانتوں کا مطالبہ کیاتھا۔ ٹرمپ نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کو واپس اسی وقت آنا چاہیے جب وہ امن کے لیے تیار ہو۔ اس کشیدہ ملاقات کے بعد یورپی اتحادیوں نے تیزی سے یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے اور امن فوجی بھیجنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔
ڈونالڈ ٹرمپ روس اور یوکرین کے درمیان تین سال سے جاری جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے امن معاہدے پر زور دے رہے ہیں۔ تاہم زیلنسکی کی جانب سے سیکیورٹی کے مطالبے نے معاہدے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ٹرمپ نے پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ امن معاہدے کے عمل کو آگے بڑھانے تک امریکہ کی طرف سے کوئی امداد نہیں دی جائے گی۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ کے حکم سے کتنی فوجی امداد متاثر ہوگی۔ ٹرمپ انتظامیہ اس بارے میں بے یقینی کا شکار ہے کہ آیا پچھلی انتظامیہ سے بچا ہوا 3.85 بلین ڈالر یوکرین کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ رکاوٹ نے پہلے سے طے شدہ معاہدوں اور ہتھیاروں کی ترسیل کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے، بشمول اہم جنگی مواد اور اینٹی ٹینک ہتھیار۔
ٹرمپ کے حکم کے بعد یورپی اتحادیوں نے یوکرین کی مدد کے اپنے منصوبوں پر نظر ثانی شروع کر دی ہے۔ اگرچہ یورپ کے پاس امریکہ کی طرح فوجی وسائل نہیں ہیں لیکن وہ جلد سے جلد امداد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یورپی حکام کا خیال ہے کہ یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی صرف موسم گرما تک ہی رہے گی۔