نئی دہلی، 19/ اپریل (ایس او نیوز /ایجنسی)پارلیمنٹ میں مودی حکومت کی اکثریت کے بل پر منظور ہونے والے وقف ترمیمی قانون کے آئینی جواز پر سپریم کورٹ کے سخت سوالات نے بھگوا خیمے میں غم و غصہ کی لہر دوڑادی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس خیمے نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے خلاف محاذ کھول لیا ہے، جہاں بعض افراد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا نام لیے بغیر ’’شریعہ کورٹ آف انڈیا‘‘ لکھ دیا، تو بعض نے سپریم کورٹ کی تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے گنبد کو سبز رنگ میں تبدیل کر دیا۔ عام آدمی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے بارے میں دائیں بازو کے انتہاپسندانہ اور گالی گلوچ پر مبنی پوسٹس کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ مودی کے حامی سپریم کورٹ کو دھمکانے میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی آئین کو تسلیم کرتی ہے، نہ عدالت کو مانتی ہے۔ سنجے سنگھ نے عدالتی موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے وزیر اعظم مودی کے منصوبوں کو دھچکا پہنچا ہے۔ بی جے پی مذہبی جائدادوں پر قبضہ کرکے اس کو اپنے دوستوں کو دینا چاہتی ہے۔
سنجے سنگھ نے وہ پوسٹ بھی شیئر کئے ہیں جن میں سپریم کو برابھلا کہا جارہاہے۔ ایک پوسٹ میں دائیں بازو کے ایک ٹرول ’مسٹر سنہا‘ نے’’ شریعہ کورٹ آف انڈیا‘‘ لکھا ہے جبکہ ایک دوسری پوسٹ میں سپریم کورٹ کے گنبد کو سبز رنگ میں دکھا کر اس چاند اور تارہ کی تصویر بنادی گئی۔ تنقید کی جارہی ہے کہ اگر یہی کام کسی مسلمان نے کیا ہوتا تو اب تک اس پوسٹ کوملک سے غداری قرار دے کر بڑے پیمانے پر کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا۔ ایک یوزر نگیندر پانڈے نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ اکثریت مخالف ہوگئی اور اس کی طاقت اکثریت کے خلاف ہی کیوں چلتی ہے۔
سی اے راجیو گپتانام کے ایک یوزر نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کو نشانہ بناتے ہوئےکہا کہ انہوںنے سبھی حدوں کو پار کرلیا، ان کا مواخذہ کیا جانا چاہئے۔ اسی یوزر نے چیف جسٹس سے اس بیان کو بھی شیئر کیا ہےکہ’’ انگریزوں کی حکومت سے قبل مسجدوں کو رجسٹر کرنے کا انتظام نہیں تھا۔ بہت ساری مسجدیں تیرہویں، چودھویں اور ۱۵؍ ویں صدی میں تعمیر کی گئی۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ آیا وہ چاہتی ہے کہ لوگ ان مسجد کے کاغذات دکھائیں۔‘‘سوشل میڈیا پر ایسے یوزر بھی ہیں جو عدلیہ کی حمایت کرتے ہوئے آئی ٹی سیل اور دائیں بازو کے ٹرولس کومنہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔